کراچی سمیت سندھ میں آٹے کا بحران، قیمت 140 روپے کلو سے متجاوز

کراچی (رپورٹ ارشاد کھوکھر) صوبائی محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور اس کی ملی بھگت میں شامل فلور ملز مالکان کے کرتوتوں کے باعث ایک بار پھر آٹے کی قیمتوں کو پرلگ گئے۔ تین دن کے اندر فی کلوگرام آٹے کے نرخوں میں ساڑھے 31 روپے کا اضافہ ہوگیا۔ غریبوں کے لئے روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا، فی کلوگرام آٹے کے ریٹیل نرخ ایک سو 40 سے 45 1روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

محکمہ خوراک کی مافیا نے کارکردگی دکھانے کے لئے کراچی اور نواب شاہ کی چھ فلور ملوں کو سیل کردیا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں وافر مقدار میں نئی فصل کی گندم آنے تک آئندہ پندرہ دن تک آٹے کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک نے سرکاری گندم کی قیمت اجرا اور ایکس مل آٹے کے نرخوں پر نظر ثانی کرکے جنوری کی شروعات میں فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ 95 روپے مقرر کئے تھے۔ تاکہ عوام کو دکانوں سے فی کلوگرام آٹا 100 روپے میں مل سکے۔ لیکن محکمہ خوراک میں موجود مافیا کی وجہ سے وہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چل سکا۔ 12 جنوری کو فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل پہنچ نرخ 94 روپے تھے، جس کے بعد اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن 27 فروری کو کراچی کے فلور ملز مالکان نے فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ بڑھاکر 120 روپے کردیئے۔ اور 28 فروری کو فی کلوگرام آٹے کے نرخوں میں مزید 13 روپے پچاس پیسے کا اضافہ کیا۔ جس کے باعث فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ 120روپے ہوگئے ہیں۔

اس طرح گزشتہ تین دن کے دوران فی کلوگرام آٹے کے نرخوں میں 31 روپے 50 پیسے کا جبکہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مقابلے میں تقریباً 36 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں آٹے کی سپلائی بھی کم ہورہی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے 28 فروری کو چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اجلاس میں اندرون سندھ کے تمام ریجن کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز ، محکمہ خوراک کے متعلقہ ریجنل افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ مذکورہ اجلاس میں چیف سیکریٹری نے آٹے کے نرخوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو کارروائی کرنے کے احکامات جاری کئے۔ جس کے بعد گزشتہ روز انتظامیہ نے کراچی کی 4 فلور ملوں عادل ،فرحان، حمزہ اور حیدری فلور مل کو سیل کردیا۔ جبکہ اسسٹنٹ کمشنر نواب شاہ نے نواب شاہ کی قلندری فلور مل اور انڈس فلور مل کو سیل کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواب شاہ کی فلور ملوں کو اس بنیاد پر سیل کیا گیا کہ ان کے پاس گندم کا اسٹاک نہیں تھا۔ جبکہ فلور ملز مالکان کا موقف ہے کہ نواب شاہ کی فلور ملوں کو ضلع خیرپور سے گندم کا کوٹہ دیا گیا تھا۔

مذکورہ ضلع سے انہیں گندم کے اجرا میں ٹال مٹول کی جارہی ہے۔ انہیں گندم نہیں مل رہی ہے ،اس لئے ان کے پاس گندم کے ذخائر نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع خیرپور کے جس گودام سے ان فلور ملوں کے لئے گندم کا کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔ اس گودام کا انچارج مگسی برادری سے تعلق رکھتا ہے ،وہ ان سے مبینہ طور پر فی بوری گندم پر تین سو روپے کمیشن کی ڈیمانڈ بھی کر رہا ہے۔ اور کمیشن کے بغیر ضلع خیرپور سے کسی بھی فلور مل کو گندم نہیں مل رہی۔ ذرائع نے بتایا کہ جہاں تک کراچی میں آٹے کے نرخوں میں اضافے کی بات ہے، تو کراچی میں محکمہ خوراک کی مافیا کے سرغنہ گریڈ 15 کے ملازم حسن علی مگسی اور خلاف ضابطہ ڈی ایف سی ایسٹ کے عہدے پر تعینات کلرک الطاف مگسی نے دیدہ دلیری سے سرکاری گندم چوری کرکے بیچنے اور فلور ملوں سے خوب کمیشن بٹورنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ فلور ملوں کو جو فی سو کلوگرام گندم کی بوری 8ہزار 500 روپے میں جاری کی جارہی ہے، اس کے کانٹے کی تول میں 3 سے 4 فیصد ڈنڈی ماری جاتی ہے ۔ اس کام کی نگرانی مافیا کا اہم کارندہ الطاف مگسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فلور ملوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ انہیں جو کراچی کے گودام سے گندم ملتی ہے ان میں اوسطا 5سے 6 کلوگرام مٹی اور کچرا ملایا ہوتا ہے۔ جس کے باعث فلور ملوں کو فی بوری گندم 10 ہزار روپے سے کم نہیں پڑتی۔ محکمہ خوراک کے کرپٹ حکام اس کے علاوہ بھی ان سے پیسے لینے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خوراک کی مافیا نے فلور ملوں کو فرضی گندم کا اجرا دکھاکر اپنے گھپلے چھپانے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ لبرل پالیسی کے تحت فلور ملوں وغیرہ کے لئے جو الگ گندم کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے، وہ ڈیمیج گندم ہے، جو کھانے کے قابل ہی نہیں۔ لبرل پالیسی کے تحت کراچی میں جو گندم مختص کی گئی ہے، اس کی تعداد 40 ہزار 144 ٹن یعنی 4 لاکھ 14 ہزار 485 بوری ہے۔ مافیا کے سرغنہ کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ مذکورہ ڈیمیج گندم کا ریکارڈ بھی برابر کیا جائے اور فلور ملوں پر دباؤ رکھ کر انہیں یہ گندم اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کے سرغنہ حسن علی مگسی ، الطاف مگسی اور دیگر کے کرتوت اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے میں سب نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مہنگے آٹے کی مد میں تمام تر بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع بدین اور میرپور خاص کے بعض علاقوں میں گندم کی نئی فصل کی کٹائی شروع ہوگئی ہے اور نئی فصل کی گندم محدود مقدر میں کراچی کی اوپن مارکیٹ میں آرہی ہے، لیکن زیادہ نمی والی اس گندم کی فی بوری کے نرخ بھی 11 ہزار روپے (فی کلوگرام 110 روپے )سے کم نہیں ہیں ۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو 15 مارچ کے بعد تک جب وافر مقدار میں نئی فصل کی گندم اوپن مارکیٹ میں آنا شروع ہو گی، اس وقت تک ناصرف آٹے کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ،بلکہ آٹے کی دستیابی کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مافیا کے کرتوت صرف کراچی ریجن تک محدود نہیں بلکہ حیدرآباد اور لاڑکانہ ریجن میں فلور ملوں کے نام پر جو گندم جاری ہوتی ہے، اس گندم میں سے بھی زیادہ تر حصہ مافیا کے نیٹ ورک خود گندم کے چالان جمع کراکے خریداری کے دوران فرضی خریداری کے گھپلے کو چھپارہے ہیں، جس کے باعث آٹے کا بحران مصنوعی طور پر بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک سکھر ریجن کی بات ہے تو مذکورہ ریجن میں سرکاری گندم کا کوٹہ سب سے زیادہ چور اور غیر فعال فلور ملوں کو جاری ہوتا ہے۔ مذکورہ فلور ملیں گندم سے آٹا تیار کرنے کے بجائے وہی گندم اوپن مارکیٹ میں بیچ کر گھر بیٹھے منافع خوری کرتی ہیں۔ اس کام میں بینظیر آباد ریجن کی فلور ملز مالکان بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اس ضمن میں موقف جاننے کے لئے ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ کراچی ریجن مقصود احمد گھمرو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن فون اٹینڈ نہ ہونے کے باعث ان سے بات چیت نہیں ہوسکی۔