دھرم پورہ اور ٹھنڈی سڑک کو بھی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔فائل فوٹو
دھرم پورہ اور ٹھنڈی سڑک کو بھی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔فائل فوٹو

عمران خان کے ہھتکنڈوں نے حکومتی رٹ ناکام بنا دی

نواز طاہر :
تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے عمران خان کی گرفتاری کی کوشش ناکام بنا دی۔ لاٹھیاں اٹھالیں، پولیس اہلکاروں کو دھکے دیئے، بدتمیزی کی اور یوں وفاقی پولیس اپنے فرائض انجام دیئے بغیر لوٹ گئی۔ تاہم عمران خان کی جلد ہی گرفتاری خارج از امکان قرار نہیں دی جارہی۔

اطلاعات ہیں کہ آئندہ ایک دو روز میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ جس کے باعث کارکنوں نے عمران خان کی رہائش گاہ کو اپنے مخصوص انداز میں قلعہ بنا دیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے نہ صرف عمران خان کی گرفتاری پر سخت ردِ عمل کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ سے عمران خان کے دائمی تحفظ کی درخواست کی گئی ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس تھانہ سیکریٹریٹ کے عملے کے پانچ اراکین کے ساتھ ایس پی سی ٹی اسلام آباد طاہر حسین کی سربراہی میں اتوار کو سوا بارہ بجے کے قریب عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری لے کر پی ٹی آئی چیئرمین کی آبائی رہائش گاہ زمان پارک پہنچی تو وہاں موجود کارکنوں نے پولیس کو دیکھتے ہی نعرہ بازی شروع کردی اور پولیس کو بیریئر کے باہر روکنے کی کوشش کی۔

تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے کارکنوں کو کنٹرول کرکے بتایا کہ وفاقی پولیس کی ٹیم اپنے فرائض کی انجام دہی کیلیے آئی ہے۔ اس وقت پولیس کی اس ٹیم کے ساتھ مقامی پولیس کے معمول کی ڈیوٹی والے کچھ اہلکار موجود تھے۔ جبکہ وہاں پر پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے دوران گرفتاریاں دینے والے کارکنوں کی تقریبِ پذیرائی کی تیاریاں جاری تھیں۔

پولیس کی ٹیم کو دیکھتے ہی جہاں عمران خان کے ذاتی محافظوں اور کارکنون نے پولیس کا راستہ روکا۔ وہیں پی ٹی آئی کی جانب سے کارکنوں کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ڈھال بننے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر زمان پارک پہنچنے کا پیغام جاری کیا گیا۔ اور ساتھ ہی میڈیا نے بھی عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی خبر نشر کی تو کارکن زمان پارک پہنچنا شروع ہوگئے۔ جبکہ کچھ قائدین پہلے ہی عمران خان کے گھر پر موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان قائدین میں سے بعض کے پاس پہلے سے ہی پولیس ٹیم کی آمد کی اطلاع تھی اور وہ اسے میڈیا کارکنوں کے ساتھ شیئر کرچکے تھے۔ لیکن اسے خاص اہمیت نہیں دے رہے تھے۔

پولیس کی ٹیم نے عمران خان تک رسائی کی کوشش کی تو کارکنوں نے ایس پی سمیت اہلکاروں کو دھکے دیئے اور بد سلوکی کی۔ کچھ ہی دیر میں اس رویے کے برعکس پولیس ٹیم کو عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے تک رسائی ممکن ہوئی اور پولیس نے عمران خان کی سیکورٹی کے ذریعے عمران خان کو عدالتی احکامات کی تعمیل کیلئے وارنٹ کی کاپی فراہم کی۔

وارنٹ دیکھتے ہی کارکنوں نے پھر سے نعرہ بازی شروع کر دی اور پولیس کی ٹیم وہاں بے بس دکھائی دی۔ بیس سے تیس منٹ میں، دو ہزار سے زائد کارکن جمع ہوگئے۔ جبکہ کچھ کارکن پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ اس نعرہ بازی کے باعث کینال روڈ پر ٹریفک جام ہوگیا۔ پولیس نے عدالتی وارنٹ پی ٹی آئی کے قائدین کے حوالے کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔ اسی دوران زمان پارک سے ملحقہ سڑکوں پر مختلف مقامات پر پولیس کی، قیدیوں کو جیل منتقل کرنے والی گاڑیاں اور پولیس موبائل بھی دیکھی گئیں۔

ان پولیس اہلکاروں کے مطابق وہ اس مقام پر تعینات ہیں، تاہم صرف اگلے احکامات تک۔ زمان پارک سے نکلنے کے بعد وفاقی پولیس ٹیم نے لاہور پولیس ہیڈ کوارٹر میں کچھ دیر قیام قیام کیا اور آئی جی اسلام آباد کو بھی اس سے آگاہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق محکمہ داخلہ کی جانب سے پولیس ٹیم کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت کی گئی اور مقامی محکمہ داخلہ نے بھی فوری طور پر زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب پٹرولنگ سے اجتناب کیا۔ اور صرف معمول کے فرائض انجام دینے والے اہلکاروں کو الرٹ کر دیا۔ جبکہ ایک الگ غیر رسمی اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ جس میں طے کیا گیا کہ رات گئے تک کسی بھی ایڈوانچر سے گریز کیا جائے اور عدالتی احکامات کی تعمیل تک ہی محدود رہا جائے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی سربراہی میں اجلاس میں قانونی ٹیم سے مشاورت کی گئی اور طے کیا گیا کہ فوری طور پر شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا جائے اور اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونے کے بجائے وقت سے پہلے اعلیٰ عدالت سے پیشگی ضمانت کا انتظام کیا جائے۔ تاہم کارکنوں کا خون گرم رکھا جائے اور حالات ناگزیر ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب قافلے کی صورت میں جایا جائے۔

اس فیصلے کے بارے میں کارکنوں کو بتایا گیا کہ عمران خان کو حکومت گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کارکن اس گرفتاری کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ گھروں سے نکل آئیں اور زمان پارک میں انسانی ڈھال بن جائیں۔ دوسری جانب لیگل ٹیم کی مشاورت کے بعد ایک درخواست تیار کی گئی اور بتایا گیا کہ ضمانت کیلئے عدالت چھٹی والے دن کھلوانے کیلئے عدالت کے در پر دستک دی جائے گی۔

اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے عدالت عالیہ کے گیٹ پر سیکورٹی اہلکاروں سے دروازہ کھولنے اور درخواست وصول کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جو ان اہلکاروں نے فرائض سے بالا ہونے کی بنا پر پورا نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق مشاورتی اجلاس میں عبوری ضمانت کیلئے عدالتِ عالیہ سے باقاعدہ رجوع کرنے پر بھی غور کیا گیا اور کچھ رہنمائوں نے چیف جسٹس کے گھر درخواست سمیت رجوع کرنے کا مشورہ بھی دیا جو رد کردیا گیا۔

اس کے بجائے طے کیا گیا کہ اس معاملے کو پولیٹیسائز کرنے کیلئے براہ راست عدالتِ عظمیٰ سے دائمی تحفظ کی درخواست کی جائے۔ ابتدائی طور پر عدالتِ عظمیٰ کو خط لکھا گیا اور ممکنہ طور پر آج پیر کے روز رجسٹرار کے ذریعے بھی درخواست پیش کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق رات نو بجے یہ سطور لکھے جانے تک تک عمران خان کی گرفتاری کا کوئی جامع پلان سامنے نہیں تھا۔

رات ساڑھے نو بجے تک زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کے کارکن نعرہ بازی کرتے ہوئے پولیس کا انتظار کر رہے تھے۔ زمان پارک پر کچھ دنوں سے کم ہوتی رونق پھر سے اچانک بڑھ گئی ہے۔ مختلف علاقوں سے یہاں پہنچنے والے کارکن عمران خان سے زیادہ مقامی رہنمائوں کے حق میں نعرے لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں عدالتی فیصلوں سے عمران خان بس ضابطے کی کارروائی پیچھے رہ گئے ہیں اور وزیراعظم بننے ہی والے ہیں۔

کارکنوں کا خیال تھا کہ پولیس رات کے کسی پہر یا علی الصبح کسی وقت آپریشن کرکے عمران خان کو گرفتار کرنے کی دوبارہ کوشش کرے گی جو ہم ناکام بنائیں گے۔ کارکن ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ خیموں کے اندر اور باہر بیٹھے رہے۔ جبکہ وہاں سے گزرتی نہر میں پانی چھوڑا جاچکا ہے اور کارکنوں کی بڑی تعداد نہر کنارے پانی اور برقی قموں سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔ ایک طرح سے یہ مقام پکنک پوائنٹ کا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ یہ راستہ استعمال کرنے والے لوگ ٹریفک جام کو عذاب سے تعبیر کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرتے گزر رہے ہیں۔

زمان پارک میں دوسرے شہروں سے آنے والے پی ٹی آئی کے سابق ارکان اسمبلی نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا کہ، اسلام آباد پولیس نے گرفتاری کیا عمل میں لانی ہے، ہمارا اچھا ایونٹ بن گیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت عمران خان کو گرفتار نہیں کرنا چاہتی۔ ورنہ گرفتاری کوئی مسئلہ نہیں۔ کارکنان گرفتاری سے روک کیسے سکتی ہیں۔ ریاست کی طاقت، ریاست کی طاقت ہوتی ہے۔ پولیس اپنی ضابطے کی کارروائی کر گئی ہے اور باقی سب آپ سمجھتے ہیں۔