قومی خزانے میں اربوں روپے جمع کیے جا سکیں گے،فائل فوٹو
 قومی خزانے میں اربوں روپے جمع کیے جا سکیں گے،فائل فوٹو

کالے دھن میں ملوث سرمایہ کاروں کیخلاف گھیرا تنگ

عمران خان :
ایف بی آر نے منی لانڈرنگ میں ملوث ملک بھر کے جیولرز اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں سے ریکوری کی تیاری کرلی۔

ڈائریکٹوریٹس آف ڈیزیگنیٹیڈ نان فنانشنل بزنس اینڈ پروفیشن (DNFBP) کے تحت یہ تیاریاں مذکورہ قوانین منظور ہونے اور ریکوری سیل کے قیام کے 3 برس بعد مکمل کی گئی ہیں۔ جس کیلئے اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں قائم ایف بی آر ان لینڈ ریونیو کے انٹیلی جنس دفاتر میں خصوصی ٹیمیں بنا دی گئی ہیں۔

ان ٹیموں نے اب تک سینکڑوں جیولرز اور اسٹیٹ ایجنٹوں کے حوالے سے ملنے والی مشکوک اور غیر دستاویزی اربوں روپے مالیت کے لین دین کی ٹرانزیکشنز کی چھان بین کے بعد ابتدائی کیس تیار کر لیے ہیں۔ ان کارروائیوں سے ایک جانب ملک بھر میں جیولری اور رئیل اسٹیٹ میں کالے دھن کی غیر دستاویزی سرمایہ کاری میں ملوث عناصر گرفت میں لاکر ایف اے ٹی ایف کے نکات کو پورا کیا جاسکے گا اور دوسری جانب اربوں روپے کی ریکوری قومی خزانے میں شامل کرکے انہیں ہمیشہ کیلئے محصولات کے دائرے میں لاکر ٹیکس نیٹ میں سالانہ اضافہ ممکن بنایا جاسکے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اس ضمن میں قواعد و ضوابط مرتب کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر آفس کی جانب سے خصوصی ایس آر او290 (I)/ 2023 جاری کیا گیا۔ جس کے تحت منی لانڈرنگ میں ملوث ملزمان سے ریکوری کی جاسکے گی۔ جس میں غیر مالیاتی کاروبار اور سروسز جس میں جیولرز، رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اور اکاؤنٹنٹ شامل ہیں۔ ایس آر او میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیر رازم ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ ایف بی آر مذکورہ اداروں میں شامل رئیل اسٹیٹ ایجنٹس، جیولرز، قیمتی دھاتوں اور قیمتی پتھروں کے ڈیلرز کی رپورٹنگ اداروں کے حوالے سے ہے۔ جو اکاؤنٹنٹ جو انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان اور انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کے ممبران نہیں۔

اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 64 کی ذیلی دفعہ (2) کی شق (سی) کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی اختیارات کا استعمال کرے گی اور اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں ایف بی آر مذکورہ ایکٹ کے حوالے سے ضوابط، ہدایات اور رہنما خطوط جاری کرے گا۔ جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ اور کائونٹر فنانسنگ آف ٹیررازم ریگولیٹری اتھارٹی اپنے موجودہ عمل کی پیروی کر سکتا ہے اور جرمانے کی وصولی کیلئے عمل تجویز کر سکتا ہے۔

ایف بی آر افسران کے مطابق 2020ء میں پہلی بار ملک میں تمام مالیاتی لین دین کو دستاویزی بنانے کیلئے فنانشل مانیٹرنگ ٹاسک فورس کی تجاویز کی روشنی میں ملک بھر کے جیولرز، اکائونٹنٹس اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک افراد اور کمپنیوں کے مالی لین دین کو ایف بی آر کی مانیٹرنگ میں لانے اور ان کی رجسٹریشن کا حتمی فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کے لئے ایف بی آر میں ڈائریکٹوریٹس آف ڈیزیگنیٹیڈ نان فنانشنل بزنس اینڈ پروفیشن (DNFBP) کے نام سے خصوصی شعبہ قائم کیا گیا۔ اس کے اطلاق کیلئے یکم اکتوبر 2020ء سے کام شروع کردیا گیا۔ جس کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کئے گئے۔

چونکہ گزشتہ دہائیوں میں جیولرز، بلڈز، رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اور اکائونٹنٹس کے مالی لین دین اور ان کی رجسٹریشن کے معاملات بغیر کسی حکومتی ریگولیٹری اتھارٹی کے چل رہے تھے۔ اس لئے ان شعبوں میں غیر دستاویزی مالی لین دین اور کرنسی کی غیر قانونی ترسیل کی بہتات پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ پاکستان میں روازانہ درجنوں شہروں میں پلاٹوں، زمیوں، مکانوں کے علاوہ زیوررات اور کچے سونے کے ہزاروں سودے ہوتے ہیں۔ جن میں اربوں روپے کی غیر دستاویزی ٹرانزیکشنز کی جاتی ہیں۔ جبکہ انہی شعبوں میں کالے دھن اور منی لانڈرنگ کے امکانات زیادہ ہیں۔ جبکہ ان کے ذریعے دہشت گردوں کو فنڈنگ کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ چونکہ ان شعبوں سے وابستہ اکثریت ایف بی آر میں کاروبار ی کمپنیوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہیں۔ اس لئے یہ ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔

ایف بی آر کی جانب سے بعد ازاں اس مہم کو تیز کرتے ہوئے2021ء اور 2022ء کے دوران ملک بھر کے ہزاروں جیولرز اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں کی نشاندہی کرکے انہیں رجسٹرڈ کرنے کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ جبکہ ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ان شعبوں کے افراد کو متعدد بار مہلت بھی دی گئی۔ تاہم اس کے باجود اب بھی ان شعبوں سے منسلک ہزاروں افراد نے خود کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ نہیں کروایا۔ تاہم اب ایف بی آر حکام کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف سختی سے نمٹنے کے لئے سخت کارروائی اور ریکوری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈائریکٹوریٹس آف ڈیزیگنیٹیڈ نان فنانشنل بزنس اینڈ پروفیشن (DNFBP) کے تحت ایف بی آر افسران انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں کہ اس کے زمرے میں آنے والے شعبوں میں نشان زد غیر مالیاتی کاروبار اور شعبے (DNFBPs) بشمول رئیل اسٹیٹ ایجنٹس، قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے ڈیلرز اور ایف بی آر کے زیر نگرانی کام کرنے والے اکاؤنٹنٹس انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے بنائے گئے ضوابط پر عمل کریں۔

مالیاتی اداروں، وکلا، قانونی معاونت فراہم کرنے والی فرمز اور ایف بی آر کی نگرانی سے باہر اکاؤنٹنٹس کی نگرانی دیگر مجاز حکام اور ان کے اپنے بنائے ہوئے ریگولیٹری ادارے کرتے ہیں۔ اس کے تحت مذکورہ تمام شعبوں کے افراد 20 لاکھ روپے سے زائد کا لین دین کریں گے تو ان پر بھی یہ ایکٹ لاگو ہو گا۔ اکاؤنٹنگ اور قانونی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کلائنٹس کو ٹرسٹ اور کمپنی کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہے ہوں۔ ان پر بھی یہ ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔ تاہم فی الوقت اینٹی منی لانڈرنگ کے تحت ریکوری کا دائرہ کار جیولرز اور رئیل اسٹیٹ تک لاگو کیا جا رہا ہے۔