عمران خان :
کسٹمز، ڈریپ اور پولیس کی سرپرستی میں جنوبی افریقہ سے بھینسوں کا دودھ بڑھانے والے انتہائی مضر صحت اور ممنوعہ انجکشن کی اسمگلنگ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ بوسٹن اور سوماٹیک انجکشن مافیا نے کراچی کے بعد پنجاب کے 4 ایئر پورٹس کو انجکشن کی اسمگلنگ کا مرکز بنا لیا ہے۔ جہاں سے روزانہ درجنوں کھیپوں سے ہزاروں انجکشن اسمگل کر کے پنجاب اور کراچی کے باڑوں کے لئے سپلائی کیے جا رہے ہیں۔
کراچی کے 9 بدنام زمانہ اسمگلروں کے نیٹ ورک پنجاب کے ایئر پورٹس سے اترنے والی سپلائی وصول کر رہے ہیں۔ جن میں علی گٹھا، مصطفی، عمران سنگا پوری، علی افریقہ، آصف ماما، طلحہ، الیاس، نعمان اور اکرم بلوچ کے گروپ شامل ہیں۔ کراچی میں صدر الیکٹرونک مارکیٹ کی اسٹار مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹوں میں بالائی منزلوں پر موجود گوداموں کو موبائل فونز اور اسیسریز کی آڑ میں انجکشن کی کھیپ رکھنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں سے روزانہ یہ سپلائی بھینس کالونی، بن قاسم، ملیر ،گڈاپ، بلدیہ ٹاؤن سمیت مختلف علاقوں میں موجود باڑہ مالکان کے لئے منتقل کی جارہی ہے اور بعض مخصوص میڈیکل اسٹوروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں کئی برسوں سے مضر صحت انجیکشن کے لئے سرگرم اسمگلنگ مافیا نے پنجاب کے ایئر پورٹس کا رخ کرلیا ہے، جہاں پر شعبہ بین القوامی آمد پر تعینات کسٹم کے ساتھ بعض کرپٹ افسران نے مضبوط سیٹنگ بھاری رشوت کے عوض بنائی ہے۔
واضح رہے کہ 5 برس قبل سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے واضح فیصلہ دیا گیا کہ بھینس کے دودہ میں اضافے کیلئے کیلئے لگائے جانے والے انجکشن کی ملک میں تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس کے استعمال سے بھینسوں میں کینسر کے علاوہ انسانوں میں ہارمونز کا تناسب بگڑنے سے مہلک امراض جنم لے سکتے ہیں۔ جس کے بعد ملک میں اس انجکشن پر پابندی عائد کی گئی اور اس کو ممنوع قرار دے کر اس کا استعمال جرم قرار دیا گیا۔
اس سے قبل ملک میں آئی سی آئی سمیت بعض بڑی فارما سوٹیکل کمپنیاں یہ انجکشن تیار کرکے فروخت کر رہی تھیں۔ تاہم پابندی لگنے کے بعد اس انجکشن کی بیرون ملک سے کھیپوں میں اسمگلنگ شروع کردی گئی اور مقامی مارکیٹ میں جو انجکشن پہلے 300 روپے میں فروخت ہوتا تھا آج وہ 2500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
اس انجکشن کے کاروبار میں منافع کی انتہائی زیادہ شرح کی وجہ سے الیکٹرونک اور موبائل فونز کی اسمگلنگ کا کام کرنے والے کئی گروپ انجکشن کی اسمگلنگ میں شامل ہوگئے۔ کیریئر ہر پرواز سے فی کھیپ ایک ہزار سے 1500 انجیکشن سامان میں چھپا کر لاتے ہیں۔ پنجاب سے یومیہ آنے والی کھیپ کو ڈمپ کرنے کیلئے کراچی میں صدر الیکٹرونک مارکیٹ کی اسٹار مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹوں کے گودام بڑے پوائنٹ ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مضر صحت سوما ٹیک اور بوسٹن کے مضر صحت انجکشن اسمگلر اپنے کارندوں کے ذریعے جنوبی افریقہ سے منگوا رہے ہیں، کیونکہ اس وقت یہ انجکشن جنوبی افریقہ میں ہی بن رہے ہیں اور وہاں کی بلیک اور گرے مارکیٹ سے بآسانی خرید ے جا سکتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ان کی پروڈکشن اور فروخت پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔
ایئر پورٹ کے علاوہ سوما ٹیک انجکشن کی بھاری مقدار ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم سے بھی مس ڈیکلریشن کے ذریعے کراچی منگائی جاتی رہی۔ تاہم گزشتہ عرصہ میں کراچی میں کسٹمز انفورسمنٹ حکام کی جانب سے سخت اقدامات کئے جانے کے بعد اسمگلروں کے نیٹ ورک نے پنجاب کے ایئر پورٹس کو اس اسمگلنگ کا گڑھ بنا لیا ہے۔
ایئر پورٹس سے کسٹمز کے کرپٹ افسران کی سرپرستی میں انجکشن نکالے جانے کے بعد پنجاب سے کراچی پولیس کی سرپرستی میں سپلائی کئے جاتے ہیں، جنہیں بھینس کالونی، بن قاسم، سکھن، ملیر، گڈاپ، بلدیہ ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں پولیس کی سرپرستی میں باڑوں کے مالکان کو فروخت کیا جاتا ہے۔
یہاں ڈرگ ریگولیٹری اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ضلعی افسران بھی اس نیٹ ورک کے سرپرست بن گئے ہیں جنہوں نے مالی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس حوالے سے ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے بقول اس پوری صورتحال میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کردار انتہائی غفلت پر مبنی ہے، جو کہ اپنی ذمے داریاں نبھانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
ڈریپ صوبائی وزارت صحت کے تحت ایسا کوئی نظام نہیں بنایا گیا کہ یومیہ بنیادوں پر ٹیسٹ کے ذریعے انجیکشن زدہ دودھ پکڑا جا سکے اور باڑہ مالکان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ صوبائی وٹنری ڈپارٹمنٹ کو بھی ان ذمے داریوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں کی صحت داؤ پر لگ گئی ہے۔