نواز طاہر :
عدالتی احکامات پر پولیس زمان پارک سے مکمل طور پر نکل چکی ہے۔ تاہم زمان پارک پر پی ٹی آئی کے مزید کارکنان پہنچ چکے ہیں۔ جن میں پچانوے فیصد سے زائد پنجاب سے باہر اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا، سوات، گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقوں سے ہیں۔ ان کارکنان میں ایک کالعدم تنظیم کے شر پسند عناصر بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے زمان پارک کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔ ان شر پسندوں کے پاس آتشیں اسلحہ بھی موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔
کالعدم تنظیم کے کارکنان شہر کے مختلف علاقوں میں بھی مقیم ہیں۔ جبکہ بعض شر پسند عناصر کو زمان پارک ہی کے بعض گھروں میں رہائش کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کارکنوں نے عمران خان کے قریبی گھروں کے فرش توڑ کر پتھر جمع کر رکھے ہیں۔ ادھر عدالت نے پی ٹی آئی کا انیس مارچ کا لاہور میں جلسہ بھی روک دیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے کارکنان کو امید ہے کہ جلسے کا اعلان برقرار رکھا جائے گا۔
یاد رہے کہ مسلسل تصادم کے بعد عدالت نے بدھ کے روز آپریشن روک دیا تھا اور جمعرات کو اس حکم میں آج جمعہ کے روز تک توسیع کردی گئی ہے۔ تاہم اس دوران تحریکِ انصاف کے کارکنان پھر سے زمان پارک میں بڑی تعداد میں جمع ہوگئے ہیں۔ البتہ ہزاروں ایسے افراد اور بہت سے رہنما دکھائی نہیں دیتے جو آٹھ مارچ کے بعد سے کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔
اس وقت زمان پارک میں ایسے کارکنوں کا قبضہ ہے جو پنجاب سے باہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کارکنوں نے دھکیل کر دو کنٹینرز عمران خان کے گھر جانے والی گلی کے سامنے کھڑے کر دیے ہیں اور گلیوں میں بھی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے گھر اور دو ملحقہ گھروں کے لان سے راہداریوں کیلئے لگائے گئے مخصوص پتھروں کے فرش ٹوٹ چکے ہیں اور ان سے اکھاڑے گئے پتھر ابھی بھی کارکنوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک گوجرانوالہ کے رہائشی ابو ہریرہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ گوجرانوالہ میں دروازوں اور کھڑکیوں کے قبضے بنانے کا کام کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پتھر تھا۔ جو اس نے ہوا میں لہراتے ہوئے کہا کہ یہ (پتھر) اس نے عمران خان کے گھر کے باہر سے اٹھایا ہے اور اس سے وہ پولیس کو مارے گا۔
زمان پارک کے اندر واقع گول گرائونڈ (زمان پارک) کے اندر بیرون شہر سے آئے پی ٹی آئی کارکنوں نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں میں ایک کالعدم تنظیم کے اراکین بھی شامل ہیں۔ اس کالعدم تنظیم کے افراد شہر کے مختلف علاقوں میں بھی پناہ گزین ہیں۔ جبکہ کچھ شر پسند عناصر کو زمان پارک ہی کے بعض گھروں میں رہائش کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ بھی لوگ مختلف ریسٹ ہائوسز اور نجی ہوٹلوں میں یہ مقیم ہیں۔ تاہم زیادہ تر کارکنان مختلف گھروں اور ڈیروں میں ڈالے ہوئے ہیں۔
کینال روڈ پر زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کے پشتو بولنے والے کئی کارکنان مقامی ورکرز کو گھروں میں جانے کی تلقین کرتے ہوئے یہ کہتے بھی سنے گئے کہ تم لوگ جائو۔ اب ہم نے سیکورٹی سنبھال لی ہے۔ خان کا تحفظ کرلیں گے۔ اب کوئی ادھر کا رخ کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔
ریاستی اداروں کو بھی زمان پارک میں ایسے لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی فراہم کی گئیں۔ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دوسرے صوبوں میں مطلوب ہیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی سوات کے سابق امیر مولانا صوفی محمد کے ترجمان اور مرکزی امیر محمد عبداللہ کی تصویر بھی جاری کی ہے۔ سیکورٹی اداروں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زمان پارک میں دیکھنے میں تو ڈنڈے، غلیلیں اور پتھر ہی ہیں۔ لیکن جدید آتشیں اسلحے رکھنے والے بھی موجود ہیں اور یہ اسلحہ گزشتہ پانچ چھ روز میں پہنچا ہے۔ پولیس سے تصادم کیلئے استعمال ہونے والے زیادہ تر پتھر عمران خان کے گھر سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے سے گزرتی ریلوے لائن سے بھی جمع کیے گئے تھے۔ جس کے بعد ریلوے لائن کے اطراف میں کچھ فاصلے تک شامیانے بھی لگا دیئے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم کے کارکنوں کی زمان پارک میں موجودگی کی اطلاعات کی تصدیق نگران حکومت کے وزیر عامر میر نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ’امت‘ کو بتایا ہے کہ یہ معلومات آئی جی پنجاب کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں۔ درجنوں سیکورٹی اہلکار مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اور حاصل شدہ معلومات کی نادرا سمیت مختلف ذرائع سے تصدیق کی جارہی ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس کے ساتھ تصادم میں دکھائی دینے والے ایک ہی وضع قطع کے کئی کارکنوں کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ تاہم انہیں شناخت کرنے کا عمل جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہی کارکنان ہیں جو انیس مارچ کا جلسہ کرنے کا مطالبہ دہرا رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اگر اس جلسے کو روکا گیا تو روکنے والوں اور رکاوٹوں کا وہ مقابلہ کریں گے۔ جبکہ اس وقت تک عدالت عالیہ مجوزہ جلسہ روکنے کا عبوری حکم اور معاملات انتظامیہ کے ساتھ مل بیٹھ کر طے کرنے کی ہدایت کر چکی تھی۔ جب ریاستی اداروں اور سیکورٹی اداروں کے ذمے داران سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں کی اطلاعات کے بعد کیا کارروائی کی جارہی ہے تو اس پر جواب دینے اور تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا۔
البتہ سرکاری طور پر انسپکٹر جنرل پولیس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انتظامیہ، انٹیلی جنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک پیج پر متحد ہیں اور اس اتحاد کی موجودگی میں کوئی ریاست پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ گلگلت بلتستان پولیس کے اہلکار پنجاب پولیس کے ساتھ لڑائی کیلئے نہیں لائے گئے۔ بلکہ وہ اپنے ریاستی عہدیداروں کے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں۔ جو ان کا فرض ہے۔ اور جب کوئی بھی اہلکار پولیس کی وردی پہن لیتا ہے تو وہ کسی بھی پولیس اہلکار کے ساتھ لڑائی نہیں کرتا۔
دریں اثنا ذرائع نے بتایا کہ زمان پارک آنے والوں کی مکمل چھان بین کے بعد مزید لائحہ عمل طے کیا جائے گا اور مشکوک اور مطلوب افراد کی الگ الگ شناخت بھی جاری کی جائے گی۔ مطلوب افراد کی گرفتاریوں کی پلاننگ بھی کی جائے گی۔ اس دوران پی ایس ایل ختم ہو چکا ہوگا اور سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد وہاں سے واپس آچکی ہوگی۔ غالب امکان ہے کہ ان مطلوب افراد کی لاہور سے باہر نکلنے پر گرفتاریاں عمل میں لائی جائیںگی۔ دوسری جانب زمان پارک سے ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ابھی بھی پولیس کے کچھ اہلکار موجود ہیں۔ تاہم کسی کو زمان پارک کی جانب جانے سے روکا نہیں جارہا ہے۔