صدام حسین نے 7 ماہ کی تفتیش میں ایک جھوٹ بھی نہیں بولا-فائل فوٹو
 صدام حسین نے 7 ماہ کی تفتیش میں ایک جھوٹ بھی نہیں بولا-فائل فوٹو

’’عراق پر حملہ امریکا کا سب سے بڑا گناہ تھا‘‘

میگزین رپورٹ :
عراق جنگ کے حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کہ امریکا نے جھوٹے الزامات اور مفروضوں کی بنیاد پر عراق میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی اور لاکھوں عراقی لقمہ اجل بنے۔ تاہم عراق سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ملے نہ صدام حسین کا القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن سے کوئی تعلق بن سکا۔ اب اس امر کی تصدیق امریکی ایف بی آئی کے ہائی پروفائل ایجنٹ جارج پیرو نے بھی کر دی ہے۔ جسے صدام حسین سے تفتیش کیلیے چنا گیا تھا۔

جارج پیرو نے سی این این سے تہلکہ خیز انٹرویو میں کہا کہ عراق پر حملہ امریکہ کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ ہم صدام حسین سے دو پہلوؤں پر تفتیش کر رہے تھے اور دونوں میں ہی ہماری معلومات غلط نکلیں۔ صدام حسین نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اسامہ بن لادن کے معاملے پر کھل کر بات کی۔ جبکہ 7 ماہ کی طویل تفتیش کے دوران سابق عراقی رہنما نے ان سے ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولا۔ امریکی ایجنٹ کے اس انٹرویو میں صدام حسین کی شخصیت کے وہ پہلو بھی سامنے آگئے۔ جو اس سے پہلے سنے گئے تھے نہ دیکھے گئے تھے۔ مذکورہ انٹرویو سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے:
سی این این: ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کیسے شروع ہوا؟

جارج پیرو: کرسمس کی شام مجھے ایک کال موصول ہوئی، اور بتایا گیا کہ مجھے ایف بی آئی کی جانب سے صدام حسین سے تفتیش کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن تھا۔ مجھے ایک ایسی شخصیت سے پوچھ گچھ کرنا تھی۔ جو کئی برس سے عالمی افق پر موضوع بحث رہی ہے۔ میں نے صدام حسین کی زندگی پر لکھی گئی دو کتابیں خریدیں اور ان کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔ میں بطور ایف بی آئی ایجنٹ ایک بار عراق کا دورہ بھی کر چکا تھا اور عراقی ثقافت سے بھی مانوس تھا۔

سی این این: آپ صدام حسین کے ساتھ کتنے عرصہ رہے اور بات چیت کس زبان میں کرتے تھے؟

جارج پیرو: میں نے لگ بھگ 7 ماہ تک صدام حسین سے تفتیش کی۔ مجھے صدام حسین سے بات چیت کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ کیونکہ میں عربی بولنا جانتا تھا۔ باقاعدہ تفتیش ہفتے میں ایک یا دو بار کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی۔ میں نے صدام حسین کے ساتھ ون آن ون بات چیت کا سلسلہ بڑھا دیا۔ تاکہ جلد ہی اپنی تفتیش مکمل کر سکوں۔ پھر ہم نے ہر موضوع یعنی تاریخ، کلچر، اسپورٹس اور سیاست پر بات کی۔ ابتدائی چند ماہ میں میرا فوکس یہ تھا کہ صدام حسین زیادہ سے زیادہ بات کریں۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ان کی زندگی میں کن چیزوں کی اہمیت ہے۔ وہ کیا پسند اور نا پسند کرتے ہیں۔ ان کا سوچنے کا انداز کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک ایف بی آئی ایجنٹ بالخصوص ماہر تفتیش کار کی حیثیت سے وہ سب کچھ جاننا چاہتا تھا۔ جو پوچھ کچھ کیلئے ہماری ترجیح تھی۔

سی این این: بہت سے امریکی مانتے تھے کہ صدام حسین نائن الیون میں ملوث تھے۔ کیا انہوں نے اس پر بات کی؟

جارج پیرو: اس وقت کے محکمہ دفاع کے بہت سے حکام بھی صدام حسین کو ذاتی طور پر نائن الیون میں ملوث قرار دیتے تھے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس تھے۔ صدام حسین نے بتایا کہ وہ اسامہ بن لادن کو پسند ہی نہیں کرتے تھے اور ان کے خیالات سے بھی اتفاق نہیں کرتے تھے۔ دیگر عراقی قیدیوں نے بھی تصدیق کی کہ ان کا القاعدہ کے ساتھ کوئی آپریشنل تعلق نہیں تھا۔

سی این این: صدام حسین سیکولر تھے؟

جارج پیرو: صدام حسین خود کو عرب تاریخ اور دنیا کا بڑا لیڈر سمجھتے تھے۔ وہ عراق کی عرب ثقافت کو فوقیت دیتے تھے۔ جبکہ غیر مسلموں یا مسیحیوں پر قبول اسلام کیلئے انہوں نے کبھی کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ ان کے ڈپٹی وزیر اعظم طارق عزیز بھی کرسچن تھے۔ اسی طرح ان کے محلات اور صدارتی محل کا زیادہ تر اسٹاف بھی مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ اپنی 67 ویں سالگرہ پر صدام حسین بہت غمگین ہوگئے۔ میں ان سے تفتیش کر رہا تھا۔ جب انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ عراقی عوام جشن منا رہے ہیں۔ کیونکہ ان سے صدام حسین کی سالگرہ منانے کیلئے زبردستی نہیں کی جارہی تھی۔ اس موقع پر وہ صدمے میں چلے گئے تھے۔ سارا دن ڈسٹرب رہے۔ میری والدہ نے گھر پر کچھ کوکیز بنائی تھیں۔ میں یہ صدام حسین کیلئے لے گیا۔ ہم نے ساتھ چائے پی۔ اس سے صدام حسین کا حوصلہ بڑھا اور آخر کار انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارے سوالات کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ لیکن میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مجھے کچھ نہیں بتانا چاہتے تھے تو کوئی بات نہیں۔ مگر آپ مجھ سے جھوٹ بھی نہیں بولیے گا۔ کیونکہ یہ بات توہین آمیز ہے۔ یوں کم از کم 5 ماہ کے بعد میں نے صدام حسین سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی حقیقت جان ہی لی۔

سی این این: تو صدام حسین نے آپ کو کیا بتایا؟

جارج پیرو: صدام حسین نے واضح طور پر کہا کہ عراق کے پاس کوئی ایسے ہتھیار نہیں تھے۔ انہوں نے 2000ء میں جو دعویٰ کیا تھا۔ وہ صرف ایران کو قابو میں رکھنے کیلئے تھا۔ کیونکہ ایران عراق پر چڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ ایران کو اسی دھوکے میں رکھنا چاہتے تھے کہ ہمارے پاس بہت خطرناک ہتھیار ہیں۔ اور یہ کہ اگر اس نے حملہ کیا تو اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ صدام حسین باتوں باتوں میں یہ بھی کہہ گئے کہ ان کا سب سے بڑا دشمن امریکہ اور اسرائیل نہیں۔ بلکہ ایران ہے۔ وہ عراق کی سا لمیت کیلئے خطرہ ہے۔ اس نے متعدد بار جنوبی عراق پر قبضے کی کوشش کی۔ ایران کے ساتھ 8 سالہ جنگ میں عراقیوں نے بڑی قربانیاں دیں۔

سی این این: پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کیوں کیا؟

جارج پیرو: یہ 21 ویں صدی کے آغاز کی امریکہ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جس کا فائدہ امریکا اورعراق کے بجائے ایران کو ہوا۔ صدام حسین نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں نہیں پتا عراق پر حکومت کرنا کتنا مشکل ہے۔ ایک چیز جو مجھے بہت زیادہ مایوس کرتی ہے کہ عراق جنگ کے آغاز میں ہمارے (امریکہ کے) پاس بہت سارے مواقع تھے۔ جنہیں ہم نے ناکامیوں میں بدل دیا۔ میں سوچتا ہوں اگر ہم یہ غلطیاں نہ کرتے تو آج کا عراق کتنا مختلف ہوتا۔