چینی اور آٹے کی بوریوں پر پریکٹس کرکے خود کو مقابلوں کیلیے تیار کیا-فائل فوٹو
چینی اور آٹے کی بوریوں پر پریکٹس کرکے خود کو مقابلوں کیلیے تیار کیا-فائل فوٹو

غریب چائے والے نے ورلڈ کک باکسنگ چیمپئن شپ جیت لی

اطہر فاروقی :
’’بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد رات دو بجے ہوٹل بند ہوجاتا تو سونے کے بجائے میں ہوٹل کے اسٹور میں رکھی چینی اور آٹے سے بھری بوریوں پر پریکٹس کیا کرتا تھا۔ بس ایک جنون تھا کہ ایسا کک باکسر بننا ہے۔ جس کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکے‘‘۔

بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک پسماندہ گائوں سے تعلق رکھنے والا جواں سال آغا کلیم نمائندہ ’’امت‘‘ کو اپنی جدوجہد کی داستان سنارہا تھا۔ اس کی چمکتی آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کہ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی جستجو رکھتا ہے۔ تمام تر غربت کے باوجود انتہائی نامساعد حالات میں بھی آخر کار آغا کلیم نے اپنی منزل کی طرف کامیابی سے پیش قدمی شروع کردی۔

پانچ پانچ مرتبہ آل کراچی اور آل سندھ کک باکسنگ چیمپئن شپ میں میدان مارا۔ پھر ملک سے باہر ایران، قازقستان اور چین میں گولڈ میڈل حاصل کئے۔ آغا کلیم کا تازہ کارنامہ رواں ماہ مارچ میں ہونے والی ورلڈ موئی تھائی کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتنا ہے۔ جس میں چالیس ممالک کے کک باکسروں نے حصہ لیا تھا۔

آئی ایف ایم اے ورلڈ موئی تھائی چیمپئن شپ سالانہ امیچور مقابلے ہیں۔ جو انٹرنیشنل فیڈریشن کے زیر اہتمام ہوتے ہیں۔ آغا کلیم نے مارچ دو ہزار تئیس میں ہونے والی چیمپئن شپ کے فائنل میں انڈونیشیائی کک باکسر کو زیر کرکے لائٹ فلائی ویٹ کٹیگری میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا ہے۔

باقاعدہ پروفیشنل ٹریننگ اور مناسب غذاکے بغیر، بارہ گھنٹے ڈیوٹی اور پھر رات بھر جاگ کر کلب جانے والے اتھلیٹ کے لیے دنیا کے اعلیٰ تربیت یافتہ کک باکسروں کو چت کرکے چیمپئن شپ جیتنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس سے قبل آغا کلیم نے قازقستان میں نوماڈ ایم ایم اے چیمپئن شپ میں بھی گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔ بعد ازاں ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کے سبب اسے دو بار عالمی مقابلوں میں شرکت سے محروم ہونا پڑا۔ ایک بار وہ دبئی اور دوسری بار تھائی لینڈ نہیں جا سکا تھا۔

اس بار بنکاک (تھائی لینڈ) میں ہونے والے موئی تھائی مقابلوں کے لئے بھی آغا کلیم کو اسپانسر نہیں مل رہا تھا۔ لیکن پھر ایک قدردان نے اس کی روانگی اور ٹکٹوں کے پیسوں کا بندوبست کر دیا۔ یوں اس کا تھائی لینڈ جانا ممکن ہوا اور اس نے دیار غیر میں پاکستانی پرچم لہراکر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیے۔

بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک چھوٹے گائوں قلعی کربلا کے ایک غریب گھرانے میں سن دو ہزار میں آنکھ کھولنے والا سید آغا کلیم اللہ روزگار کے سلسلے میں دو ہزار دس میں کراچی آیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر محض دس برس تھی۔ آغا کلیم اللہ نے بتایا ’’کراچی آنے کے بعد ہم بلدیہ ٹائون میں ایک کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے۔ گھر کا چولہا جلانے کے لئے میں نے اور والد سید محمد نسیم نے چائے کے ایک ہوٹل میں دیہاڑی پر کام شروع کیا۔ میری دیہاڑی صرف تین سو روپے تھے۔ پڑھائی کا شوق بھی تھا۔ لہٰذا کام کے ساتھ پڑھائی کا سلسلہ بھی شروع کیا اور جیسے تیسے میٹرک اور پھر فرسٹ ایئر کرلیا۔ تاہم نامساعد حالات اور فیس کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا سلسلہ ترک کرنا پڑا۔ گھر کا کرایہ اور بجلی و گیس کے بل بڑا مسئلہ تھے۔ چنانچہ فل ٹائم چائے کے ہوٹل پر کام کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ صرف والد صاحب کی دیہاڑی سے گھر نہیں چل رہا تھا‘‘۔

ایک سوال پر آغا کلیم کا کہنا تھا ’’ہر نوجوان کی طرح میں بھی زندگی میں کچھ بننا چاہتا تھا۔ آواز تھوڑی بہتر تھی۔ سو پہلے سنگر یا نعت خواں بننے کی کوشش کی۔ کامیابی نہیں ملی تو کرکٹر بننے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ تاہم پیسے اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے یہاں بھی ناکامی ہوئی۔ کرکٹ کی ایک نجی اکیڈمی سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ تمہارے پاس کرکٹ کا پورا سامان نہیں۔ ان ناکامیوں کے بعد مجھے کک باکسنگ کا شوق ہوا۔

صبح سے رات دو بجے تک ہوٹل پر کام کرتا۔ پھر ہوٹل کے اندر بنے اسٹور روم میں چلا جاتا جہاں چینی اور آٹے کی بوریاں رکھی ہوتی تھیں۔ ان بوریوں پر پنچنگ اور ککس مار کر پریکٹس کرتا تھا۔ ایک روز ایک کک کلب میں پہنچ گیا۔ فیس کے پیسے نہیں تھے۔ لیکن کک کلب کے مالک نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے داخلہ دے دیا۔ اب میرا معمول یہ تھا کہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتا اور پھر رات بھر جاگتا کہ صبح کلب کی کلاس مس نہ ہوجائے۔

رات بھر جاگنے کے بعد کلب جاکر ٹریننگ کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور محنت کرتا رہا۔ ٹریننگ کے دوران اکیڈمی میں ایک دن ماسٹر نے کہا کہ کلب میں ایک مقابلہ ہو رہا ہے۔ حصہ لینا ہے؟ میں نے ہامی بھرلی۔ یوں انیس برس کی عمر میں، میں نے کلب کے لڑکے سے پہلا مقابلہ کیا۔ جس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ ماسٹر نے مجھے مزید سخت ٹریننگ کا کہا۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ میرا اسی لڑکے سے مقابلہ کرایا گیا۔ اس بار میں نے اسے چت کردیا۔ اس پر پورے کلب میں میری بہت تعریف ہوئی۔ جس نے میرے حوصلے کو بڑھادیا اور میں پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔ اس پہلی جیت کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

پانچ بار آل کراچی کک باکسنگ چیمپئن شپ اور پانچ بار آل سندھ کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتی۔ علامہ اقبال ڈے اور قائداعظم ڈے کی مناسبت سے دو ہزار اکیس میں منعقد نیشنل چیمپئن شپ میں بھی میں نے میدان مار لیا۔ پھر ایشین چیمپئن شپ کا مرحلہ آیا۔ لیکن میرے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے۔ امریکہ میں رہائش پذیر میرے ایک محسن نے مجھے ایک لاکھ روپے دئے۔ یوں چین میں میں نے پہلا انٹرنیشنل مقابلہ جیتا۔ ایران میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا اور قازقستان میں نوماڈ ایم ایم اے چیمپئن شپ اپنے نام کی۔

دو ہزار بائیس میں ٹکٹ کے پیسے اور دیگر وسائل نہ ہونے پر دبئی اور تھائی لینڈ میں ہونے والی دو عالمی چیمپئن شپ میں شرکت نہیں کرسکا۔ جب ورلڈ موئی تھائی چیمپئن شپ کا مرحلہ آیا تو ایک بار پھر اسپانسر کی تلاش شروع کی۔ جو میرے ٹکٹ اور دیگر وسائل کا بندوبست کرسکے۔ اس کے لئے مجھے چھ لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ اس دوران بلدیہ ٹائون سیکٹر انیس ڈی میں جماعت اسلامی کے رہنما خلیق الرحمان سے میرا رابطہ ہوا تو انہیں میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ جس پر انہوں نے میری ملاقات جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سے کرائی

۔ انہوں نے میرے ٹکٹ اور دیگر اخراجات کا انتظام کر دیا۔ یوں میں بنکاک (تھائی لینڈ) میں ہونے والے ورلڈ موئی تھائی چیمپئن شپ میں حصہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ جہاں چالیس ممالک کے کک باکسروں کے مابین مقابلہ تھا۔ میں یکے بعد دیگرے متعدد ممالک کے کک باکسروں کو شکست دے کر فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور آخر کار فیصلہ کن معرکے میں انڈونیشیائی کک باکسر کو شکست دے کر گولڈ میڈل اپنے نام کرلیا‘‘۔

آغا کلیم اللہ کا کنبہ آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں ان کے والد اور والدہ، چار بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ آغا کلیم اللہ نے بتایا کہ ورلڈ موئی تھائی چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد میرے جو جذبات تھے وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے اللہ کے کرم سے خود پر پورا یقین تھا کہ کامیابی ملے گی۔ کیونکہ میں نے بہت زیادہ محنت کی تھی۔ اب میری نظر اپریل میں اٹلی اور مئی میں نیپال میں ہونے والی چیمپئن شپ پر ہے۔ اس کے لئے میں بھرپور تیاری کر رہا ہوں۔ تاہم اس بار بھی مجھے کسی اسپانسر کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ حکومتی سطح پر تاحال مجھ سے نہ رابطہ کیا گیا ہے اور نہ کوئی مدد کی گئی ہے۔

حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ اگلے مقابلوں کے لئے میری مدد کی جائے۔ تاکہ میں ایک بار پھر پاکستان کا نام بلند کرسکوں۔

آغا کلیم اللہ کے والد سید محمد نسیم بھی اپنے بیٹے کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔ ’’ہم دونوں باپ بیٹے ایک ہی ہوٹل پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بچے کو عزت دی۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔ اپنے بیٹے کی وجہ سے میں دنیا کے ان مقامات پر بھی جاچکا ہوں، جہاں شاید کبھی میری رسائی نہ ہوتی۔ اگر حکومت سرپرستی کرے تو میرا بیٹا پاکستان کے لئے مزید گولڈ میڈل لاسکتا ہے۔

حکومت سے آغا کلیم کا مطالبہ

آغا کلیم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے مزید سونے کے تمغے جیتنا چاہتا ہے۔ لہٰذا حکومت اپنی سرپرستی میں اس کی کامیابی کا راستہ ہموار کرے۔ اگر اسے پاکستان کسٹم میں نوکری دیدی جائے تو وہ چائے کے ہوٹل کو چھوڑ کر اپنی پوری توجہ گیم پر رکھ سکتا ہے۔