الیکشن کمیشن اس فیصلے کا پابند نہیں، یہ فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ فائل فوٹو
الیکشن کمیشن اس فیصلے کا پابند نہیں، یہ فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ فائل فوٹو

عرفان قادر کو کوئی اہم عہدہ دیے جانے کا امکان

نواز طاہر :
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کی جانب سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفے کے بعد مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ انہوں نے استعفیٰ کیوں دیا؟ ان کے قریبی حلقے کہتے ہیں کہ وہ حکومتی اور عدالتی امور میں ’ایزی ‘ نہیں تھے اور صرف وکالت اور قانونی مشاورت میں سے سیاسی منصب ہٹانا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مختلف کیمپوں سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں مستقبل میں کوئی اور بڑا عہدہ دیے جانے کے اشارے بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج اور اٹارنی جنرل سمیت مختلف قانونی عہدوں پر فرائض انجام دینے والے سینئر قانون دان عرفان قادر نے دو روز قبل صوبہ خیبرپختون اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فل بنچ کے ایک رکن کی طرف سے روسٹرم پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر فوری طورپر استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا استعفیٰ موصول ہوتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے منظور کرلیا تھا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے استعفے کی منظوری کے وقت ان کے موقف سے بھی اتفاق کیا تھا کہ انہیں سیاسی عہدے سے زیادہ توجہ قانونی امور پر ہی دینا چاہئے۔ جس پر عرفان قادر نے وزیراعظم کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں سابق اٹارنی جنرل شتر اوصاف کے استعفے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ عرفان قادر کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی اور اس ضمن میں پی ڈی ایم کی تین اہم جماعتیں بھی انہیں اٹارنی جنرل مقرر کرنے کی حامی تھیں۔ لیکن پی ڈی ایم کی جماعتوں ہی کے اندر سے سیاسی وکلا کا دھڑا اپنے ’سیاسی امور‘ کی بنا پر اس کی تائید نہیں کر رہا تھا۔

خیال رہے کہ عرفان قادر وکلا کی سیاست میں کبھی متحرک نہیں رہے۔ بلکہ وکالت کا شعبہ اختیار کرنے اور لاہور ہائیکورٹ میں انرولمٹ کے دس سال کے بعد ہی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی حیثیت سے ریاستی وکیل کے فرائض انجام دینے شرو ع کر دیئے تھے۔ وہ سیاسی نظریات سے زیادہ پیشہ ورانہ وکیل کی حیثت سے بار اور بنچ میں زیادہ قبولیت کی شناخت رکھتے تھے۔ اسی شناخت کی بنا پر انہیں لاہور ہائیکورٹ کا جج بھی مقرر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق عرفان قادر اہم مقدمات میں پی ڈی ایم کی وکالت جاری رکھیں گے اور ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے مقدمات میں بھی پیش ہوں گے۔ جن میں الیکشن کمیشن کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ جس میں انہیں سپریم کورٹ کے روسٹرم پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ایک سابق جج نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عرفان قادر ایک منجھے اور سلجھے ہوئے قانون دان ہیں۔ سپریم کورٹ کے روسٹرم سے ہٹنے یا ہٹائے جانے کا انداز ان کی نظر میں ’جوڈیشل ڈیسینسی‘ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ لاہور ہائیورٹ ہی کے ایک دوسرے سابق جج نے بتایا کہ عرفان قادر ان کے ’کولیگ جج‘ رہے ہیں اور وہ انہیں بار اور بنچ دونوں میں ایک جیسی قبولیت والے سمجھے جاتے تھے۔ ان سابق جج نے کہا کہ ’’اول تو مجھے ان کے وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ قبول کرنے سے حیرانگی ہوئی کہ وہ ایسے امور میں نہیں پڑا کرتے تھے۔ حالانکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی۔ لیکن ان میں کبھی ایسی خواہش محسوس نہیں کی گئی۔

انہوں نے اگر یہ عہدہ قبول کیا تو اپنے پیشہ ورانہ امور سے متعلق ہی قبول کیا۔ دوسرا وہ اپنے نرم رویے کے ساتھ ساتھ تحمل اور برداشت بھی عام لوگوں سے زیادہ رکھتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے بنچ کی بات پر ’غصے‘ میں سیاسی منصب چھوڑا تو ایسا لگتا نہیں۔ البتہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اور کچھ برسوں سے عدم برداشت روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس میں سبھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کا ٹالرنس لیول ہلکا سا کم ہوا ہو یا پھر بنچ کی جانب سے خاص مرحلے پر کی جانے والی بات کے کچھ اور تناظر بھی ہوں۔ لیکن ان کے بارے میں کچھ کہنا درست نہیں بھی ہو سکتا اور صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ لہٰذا یہ استعفی ایک مناسب اور اچھا فیصلہ ہے اور اب وہ حکومت یا کسی بھی فریق کا بہتر طور پر مقدمہ لڑ سکیں گے۔ میرے خیال میں وہ اس وقت بہترین اٹارنی جنرل ہوسکتے تھے۔ لیکن اس سے مراد موجودہ اٹارنی جنرل کی استعداد کو چلینج کرنا ہرگز نہیں‘‘۔

بار کے ذرائع کے مطابق عرفان قادر ایڈووکیٹ کے بارے میں وکلا برادری میں کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ بنچ اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابلِ قبول ترین وکلا میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عرفان قادر وزیراعظم کی قانونی مشاورت سیاسی عہدے کے بغیر بھی جاری رکھیں گے اور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کا نام باقاعدہ کسی بڑے سیاسی عہدے کیلئے بھی تجویز کیا جائے۔ اس استعفے کے بعد سے ان کے نمبر خاص حلقوں میں کم نہیں ہوئے۔ بلکہ بڑھے ہیں اور وہ کسی اہم عہدے کیلئے موزوں ترین شخصیت ہوسکتے ہیں۔