کراچی (امت نیوز)وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کہا کہ سندھ کی جامعات کا بیڑا غرق ہو چکا ہے وہ وائس چانسلرز آگئے ہیں جن کو کبھی انتظامیہ کا تجربہ ہی نہیں رہا جن کو مالی انتظامات کا بھی نہیں پتا۔قیام پاکستان کے بعد بننے والی پہلی سندھ یونیورسٹی جس میں چالیس ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں وہ 10کروڑ روپے بینک سے قرضہ لے کر تنخواہیں دیتی ہے جبکہ جامعہ کراچی اور شاہ عبد اللطیف جیسی عظیم یونیورسٹیز اب ڈگریوں کی مشین بن چکی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کے زیر اہتمام کالجز میں بہترین کارکردگی کی مناسبت سے ایوارڈ کی تقریب میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کی یونیورسٹیز میں لاکھوں طلبہ پڑھ کر نکلتے ہیں ماسٹرز کی ڈگری لے کر پیون اور چپڑاسی بننے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ڈگریاں ایک دھوکہ ہیں یونیورسٹی میں اساتذہ کے قبیلے بنے ہوئے ہیں
انہوں نے کہا کالجز میں فائن آرٹس اور موسیقی سے متعلق ٹیچرز مہیا کیے جائے گے، اس پر مذہبی لوگوں نے تنقید بھی کی کہ عربی پڑھانا چاہئیے مگر جنہوں نے اسلام کی تاریخ پڑھی ہے انہیں معلوم ہے کہ موسیقی کی کیا اہمیت ہے موسیقی انسان کو انسان بناتی ہے جو طالب علم ارٹ اور کلچر سے محبت کرے گا وہ کالج کی پورانی خستہ دیواروں کو رنگوں سے بھر دے گا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ کالجز میں جن وسائل کی کمی ہے ہر کالج کا پرنسپل لکھ کر ڈائریکٹر کالجز اور سیکریٹری کالجز سندھ کو بھیجیں تاکہ وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ ہم نئے کالجز بنانے کے بجائے جو موجودہ کالجز ہیں ان میں سہولیات دیں گے۔ سندھ کی کئی ایسی تحصیل بھی ہیں جن میں ہائر سیکنڈری اسکول تک نہیں جو ہیں ان میں بغیر پنکھے لیب اور واش روم کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل کالجز کو ہدایت کی ہے کہ کن کالجز میں مضامین اساتذہ کی کمی ہے جون تک پوری تیاری مکمل کر کے بتائیں تا کہ جہان مستقل مضامین کے اساتذہ نہیں ہیں وہاں ان کو منتقل کر کے کمی پوری کی جاسکے۔انہوں نے کہا کالجز کے داخلوں کے حساب سے بجٹ دیں گے تا کہ کوئی بھی کالج بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہ جائے۔
وزیر تعلیم نے کہا ہم ترقی میں اس لیے بھی پیچھے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک پرنسپل سالوں سے کالج میں کام کرتا رہتا ہے اور دوسرے کالج میں پھر وہی پرنسپل منتقل ہو جاتا ہے جب کہ کالج میں 20 سے 30 اساتذہ ہیں ان کو مواقع دینے کی ضرورت ہے۔
وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سید سردار شاہ نے کہا ہے کہ بد قسمتی سے سندھ میں ارلی چائلڈ سینٹر نہیں ہے بچہ کیا پڑھنا چاہتا ہے اس سے نہیں پوچھا جاتا ہم بچوں پر مسلط کرتے ہیں بچوں کو کریئر کونسلنگ کی سخت ضرورت ہے کالج کے سابق طلبہ کو بلانا چاہیے جو کسی مقام پر پہنچ گئے ہیں ان کو طلبہ کے ساتھ بٹھانا چاہیے۔ رسمی ثقافت کو اب ختم ہونا چاہیے تاکہ ان طلبا کو معلوم ہو کہ کس طرح کامیابی کا راستہ اختیار کرنا ہے، کیریئر کونسلنگ پر زور دینا چاہئے ۔ اس لیے ہم ایجوکیشن اسٹوڈیو قائم کرنے جا رہے ہیں ٹیکنالوجی کا دور ہے اس جدید دور میں ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ بھی عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائیں سرکاری کالجز میں سائنس میوزیم نہیں ہیں ہم پانچ سائنس میوزیم دینے جا رہے ہیں ہر ڈویژن میں سائنس سینٹر بنے گا اور ٹیکسٹ بک کے حوالے سے بھی اساتذہ کو کھلی اجازت ہے کہ وہ ہمیں تجاویز دے سکیں تاکہ ہم نصاب کو جدید دور کے حساب سے بہتر بنا سکیں۔