پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے انعقاد سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سنسنی خیز خبروں اور بریکنگ نیوز کا سبب بن رہی ہے۔قانونی ماہرین اور مبصریناس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاسی بحران کے بطن سے برآمد ہونے والا عدالتی اور آئینی بحران کسی بڑے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟ فی الوقت اس حوالے سے پیش گوئی کرنا آسان نہیں، اور ممکنہ صورت حال کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت بے شمار افواہوں کی زد میں ہے، جن میں ایمرجنسی سے لے کر دو سالہ عبوری سیٹ اپ اور مارشل لا کی افواہیں تک ذیر گردش ہیں، خاص طور پر پی ڈی یم کے اجلاس اور تین رکنی عدالتی بنچ پر عدم اعتماد کے ساتھ عملا” عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ نے خدشات کے حجم میں اضافہ کر دیا ہے،اور ایسا لگتا ہے کہ حالات بند گلی کی طرف جا رہے ہیں۔ تاہم اگر محتاط ترین الفاظ میں اس وقت صرف دو فریقوں حکومت اور عدلیہ کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو بڑی حد تک صورت حال نوے کی دہائی کے آخری حصے کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور نواز شریف کی حکومت براہ راست تصادم کی کیفیت میں آگئے تھے۔ اعلی عدلیہ میں موجود انتشار نے بغاوت کا روپ اختیار کر لیا تھا۔سیاسی اورانتظامی دباؤ کے تحت لابنگ اور جوڑ توڑ کی کہانیوں نے بھی جنم لیا جس کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس کو گھر جانا پڑا تھا۔
اس وقت بھی دیکھا جائے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور حکومت کے درمیان اختلافات کی شدت تصادم کی کیفیت میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حکومتی وزراء پریس کانفرنسوں کے زریعے عدلیہ کے فیصلوں پر ناصرف تنقید کر رہے ہیں بلکہ چیف جسٹس کے طرز عمل کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔
اگر حالیہ چند ماہ میں پیش آنے والے واقعات کی زمانی ترتیب کو پیش نظر رکھا جائے تواعلیٰ عدلیہ میں اختلاف یا تقسیم کا عمل اس وقت شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تاہم ابتدائی سماعت پر ہی یہ بنچ ٹوٹ گیا، جب چار جج صاحبان نے کیس کی سماعت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، جن میں جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اعلان کیا کہ باقی بنچ کیس کی سماعت کرتا رہے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنچ سے علیحدہ ہونے والے دو ججوں جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن پر حکومتی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا۔ کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ نے بعد ازاں از خود نوٹس کااکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا۔
پانچ میں سے دو جج صاحبان جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ یہاں سے ایک اور تنازعہ شروع ہوا جب وزیر قانون اعظم تارڑ کا یہ موقف سامنے آیا کہ یہ پٹیشن تین دو کی اکثریت سے منظور نہیں ہوئی بلکہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوئی ہے۔ ان کی مراد اختلافی نوٹ لکھنے والے دو جج صاحبان کے ساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کی رائے کو بھی شامل کرنا مقصود تھا جنہوں نے کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر سات ججز نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا، جن میں سے چار نے درخواستوں کو ناقابل سماعت جبکہ تین نے قابل سماعت قرار دیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ ایسا ہی موقف بعدازاں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان کا بھی سامنے آیا،اور انہوں نے اپنے 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں صراحت کے ساتھ ساری صورت حال بیان کرتے ہوئے اپنا وزن بنچ سے علحیدگی اختیار کرنے والے دو فاضل جج صاحبان کے پلڑے میں ڈال دیا۔یہ تفصیلی فیصلہ 28 مارچ کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر جاری کیا گیا۔ایک طرف عدالت میں مقدمے کی سماعت جاری تھی تو دوسری طرف عدلیہ کا طرز عمل بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی زد میں آ رہا تھا تاہم اس دوران عدلیہ کی تقسیم کا سبب بننے والا اہم ترین فیکٹر ازخود نوٹس کا اختیار بنا ،جس کے تحت دو صوبوں میں الیکشن کے معاملے کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔
انتیس مارچ کو قومی اسمبلی اور 30 کو سینٹ نے "عدالتی اصلاحات” کا بل منظور کرلیا جسے "سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023” کا نام دیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار محدود یا ختم کرنے کی بات کی گئی ہے ۔مجوزہ قانون کے تحت ازخود نوٹس اور بنچوں کی تشکیل کا فیصلہ اب ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس کے علاوہ دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس کے بعد دو سینئر ترین جج صاحبان کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔عدالتی اصلاحات کا یہ بل ایسے وقت میں آیا ہے جب سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں اور خود چیف جسٹس عمر عطا بندیال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحتی راستہ نکالنے کے لیے بےچین دکھائی دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے ملک کی اعلی ترین عدالت کے ججوں کے درمیان اختلاف رائے سے بڑھ کر تقسیم کا عمل گہرا ہوتا نظر آرہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف قومی اسمبلی میں از خود نوٹس پر چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کا بل لایا گیاتو دوسری طرف عدالت عظمی کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے میں حکم دیا کہ جب تک عدالتی ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے، تب تک چیف جسٹس کی جانب سے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے از خود نوٹس سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کردی جائے۔اگلی صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے جسٹس فائز عیسٰی کے بنچ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک سرکلر کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا۔ یہ واضح اور کھلا پیغام تھا کہ چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال جج صاحبان اپنے "طے شدہ” اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔واضح رہے کہ اس سے پہلے جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل بھی ازخود نوٹس سے متعلق تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
جسٹس فائز عیسی کی زیرسربراہی بینچ میں شامل جسٹس شاہد نے فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ جسٹس امین الدین نے فیصلے پر دستخط کئے اور اسی بنا پر وہ جمعہ کے روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت سے الگ ہو گئے اور یہ پانچ رکنی بنچ ٹوٹ کر چار رکنی رہ گیا تاہم عدالت عظمی نے مقدمہ کی سماعت جاری رکھنے کا اعلان کیا مگر جمعہ کی صبح بینچ کے ایک اور رکن جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سماعت میں شامل رہنے سے معذرت کر لی اور اس طرح چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ باقی رہ گیا جس نے مقدمے کی سماعت کی۔ اس دوران پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے بھی درخواست کی گئی جس سے چیف جسٹس نے اتفاق نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کے درمیان اختلاف کے باوجود تعلقات پہلے جیسے ہی خوشگوار ہیں۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ بدقسمتی سے معاملے کو سیاسی بنا دیا گیا ہے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے تیل ڈالا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بالواسطہ طور پر حکومتی الزامات کا بھی جواب دیا اور کہا کہ افواہوں کی بنیاد پر میرے ساتھی ججز کے خلاف باتیں کی گئیں۔اس سے پہلے دو سال تک ہمارا میڈیا ٹرائل ہوتا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نوے روز کے اندر الیکشن آئین کا تقاضا ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے پوچھ کر آئیں اگر 90روز نے الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں تو مزید کتنے دن درکار ہوں گے۔انہوں نے فل کورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ تین رکنی بنچ بھی عدالت ہی ہے۔کسی قانون میں فل کورٹ بنانا ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ حکومت کمٹمنٹ دے کہ کب الیکشن کرائیں گے اور پھر اس پر قائم رہے۔ اگر پیچھے ہٹنےکی کوشش کی تو اس کے نتائج ہوں گے۔انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر الیکشن کے لئے وسائل نہیں ہیں تو منگوا لیں گے ۔ اگر مسلح افواج دستیاب نہیں ہیں تو ان کو بھی بلا لیں گے۔ مقدمے کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔
حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت اور ازخود نوٹس اختیار کے حوالے سے قانونی معاملات پر امّت نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) محمد طارق عباسی سے گفتگو کی جو سوال جواب کی صورت میں پیش کی جا رہی ہے۔
ماضی کے غلظ اور بےدریغ استعمال نے ازخود نوٹس کو بہت بدنام کیا۔لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) محمد طارق عباسی کی امت سے گفتگو
س۔ ۔۔کیا موجودہ صورت حال 90 کی دہائی سے مماثلت رکھتی ہے جب حکومت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان تنازعہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا تھا ؟
ج۔بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن دعا ہے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ محاذ آرائی نہ تو عدلیہ کے حق میں بہتر ہے اور نہ دوسرے فریق کے لئے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے معاملات عدالتوں میں لے کر آتے ہیں اور جج جو under oath ہوتا ہے ، وہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق آئین اور قانون کی رو سے فیصلہ کرتا ہے۔ اب جس فریق کے خلاف فیصلہ آجائے وہ واویلا شروع کر دیتا ہے ۔یہ ٹرینڈ اب شروع ہوا ہے ۔ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ فریقین اپنا کیس عدالت میں پیش کرتے تھے اور مقدمہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں فریق عدالت سے سر جھکا کر روانہ ہو جاتے۔اب عدم برداشت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔اگر ہمارے ملک کی عدلیہ کمزور ہوگئی یا کسی وجہ سے اسے لیٹ ڈاؤن کیا گیا تو یہ ملک کیلئے المیہ ہو گا۔دوسری طرف عدالتوں کا درست کام کرنا بھی ضروری ہے۔اگر عدالتیں ٹھیک کام کریں گی تو لوگوں کا اعتماد قائم ہوگا۔ ہر شعبے میں ترقی ہوگی اور بیرونی دنیا یہ کہہ کرہم سے تعاون کرے گی کہ ہمارے ہاں عدل کا نظام قائم ہے۔اس لئے میری دعا ہے کہ اللہ تعالی کوئی ایسا راستہ نکالے جس سے یہ محاذ آرائی کی کیفیت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔
س ۔ بطور جج اور بطور قانون دان ازخود نوٹس پر چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے بل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج ۔۔آئین نے سپریم کورٹ کو سوموٹو پاور ایکسرسائز کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔یہ اختیار چیف جسٹس آف پاکستان استعمال کرتے ہیں۔ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اس اختیار کا بے دریغ اور غیر ضروری استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات اس پاور کو اپنی ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔چھوٹے چھوٹے معاملات جو کہ مصالحتی کونسل کے لیول کے تھے ان کو سوموٹو jurisdiction کے تحت سپریم کورٹ میں لایا گیا۔وہاں سرکاری اہلکاروں اور دوسرے لوگوں کی بےعزتی اور دلآزاری کی گئی جو کہ نہایت غیر مناسب بات تھی۔اس کے نتیجے میں سوموٹو کا نام کسی حد تک بدنام بھی ہو گیا۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بعض ادوار میں چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو استعمال کرنے کے لئے بہت احتیاط برتی اور صرف ایسے معاملات میں یہ اختیار استعمال کیا جہاں اور کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔دراصل سوموٹو کا اختیار دینے کے لیے قانون کی بھی یہی منشا تھی۔
س۔۔ حکومتی بل کے حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے؟
ج ۔۔ میرے خیال میں تو اس بل میں چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود نہیں کیا گیا۔بل کے تحت تین سینئر موسٹ جج صاحبان یہ طے کریں گے کہ معاملہ سو موٹو کا ہے یا نہیں۔اس سے حقیقی معاملات ہی سامنے آئیں گے اوراختیارات کا بلاوجہ اور غیر ضروری استعمال نہیں ہوگا۔ اس لئے اس بل میں چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے یا اختیار کے استعمال پر قدغن کا تاثر درست نہیں ہے۔البتہ فرق یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے بجائے تین لوگوں نے مل کر طے کرنا ہے کہ معاملہ ازخودنوٹس کا ہے یا نہیں۔
س ۔ ازخود نوٹس کیس اور جوڈیشل ایکٹیوزم ماضی میں بھی تنازعات اور تنقید کی زد میں آتا رہا ہے ۔۔ اس میں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے؟
ج ۔۔جیسا میں نے پہلے کہا کہ ماضی میں ہم نے ازخود نوٹس کے اختیار کو بہت بدنام کر دیا ہے۔ اس کی داد رسی اوراصلاح بہت ضروری ہے۔سو موٹو پاور بہت ناگزیر حالات اور ضرورت کے تحت استعمال کرنی چاہیے۔اگر ماضی میں کچھ غلط ہوتا رہا تو ضروری نہیں کہ ہم اسے دہراتے رہیں۔اب بھی سیدھی راہ پر چل سکتے ہیں اور سیدھی راہ ہی ہمیں منزل مقصود پر پہنچآتی ہے۔ جن لوگوں کو آئین نے یہ پاور استعمال کرنے کا اختیار دیا ہے ان کو چاہئے کہ وہ پرانی روایات کو ختم کریں اور اس اختیار کا درست استعمال کریں۔اس سے ہماری کوتاہیوں کا ازالہ ہوگا اور عدلیہ کی طرف انگلیاں اٹھنے کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔
س۔ چیف جسٹس بارہا اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت کے لیے وہ کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ؟کیا موجودہ صورتحال میں ایسا ممکن ہے اور عدالت کے ایسے کسی ممکنہ کردار کو سراہا جانا چاہیے؟
ج ۔۔ہمارے ہاں Alternate dispute resolution کا قانون موجود ہے۔ اس قانون کے تحت عدالتوں سے باہر معاملات کے تصفیے ہوتے ہیں۔پھر تصفیہ عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے جس کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے۔لہذا اگر چیف جسٹس نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت کے لیے کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت یا مضائقہ نہیں۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں فریق اس بات پر متفق ہوں گے۔یا کیا جب ثالث اپنا فیصلہ صادر کرے گا تو جس کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ بھی اسے قبول کرے گا۔میری نظر میں تناؤ کی موجودہ صورتحال میں چیف جسٹس کے آفس کو ہم جس حد تک لے جا چکے ہیں ، ایسے میں کوئی مثبت نتیجہ ممکن نظر نہیں آتا۔لیکن اگر ہم ہوش کے ناخن لیں ، ملک اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے سوچیں۔عدلیہ کے ادارے کی ساکھ کو بچانے اور اس میں اضافہ کرنے کا سوچیں تو پھر چیف جسٹس کو یہ اختیار دینا کوئی نامناسب بات نہیں ہوگی اور دونوں فریقوں کو مصالحتی ایجنڈے پر لا کر کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے۔