اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہاہے کہ کسی عدالت نے ہمت نہیں دکھائی کہ کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں لائے ،جب بھی نکالا منتخب وزرائےاعظم کو نکالا، ڈکٹیٹر کو ہمیشہ وکلااور عوام نے نکالا ہے ۔
مریم نواز نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں پاکستان بچانے والوں کے پاس آئی ہوں ، پاکستان کے قانون کے محافظوں کے پاس آئی ہوں، کالے کوٹ والے بہن بھائی میرا فخر ہیں، مل کر جدو جہد کریں گے،جس جماعت کا اتنا متحرک لائرز ونگ ہو اس جماعت کو کبھی آنچ نہیں آسکتی۔ مسلم لیگ (ن) میں اتنی بڑی تعداد کالے کوٹ پہننے والی بہنوں کی بھی ہے ،مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ (ن) لیگ کے پاس اعظم نذیر، عطاتارڑ ، رانا ثناءاللہ، طلال چوہدری اور انوشے رحما ن جیسے وکلاموجود ہیں۔
مریم نواز نے کہاکہ اندر آتے ہوئے دیکھا پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ یہ محبت بڑا ٹرک ہماری بہن مریم نواز کیلئے ، ہمارے پاس فواد چوہدری والے ٹرک نہیں ہیں، ہمارے پاس آئین، قانون اور وکلاکا ٹرک ہے ،پاکستان کی 76 سالہ تاریک میں 40 سال پاکستان میں آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم نے کبھی مدت پوری نہیں کی ، 4 ڈکٹیٹرز پاکستان میں آئے، دس دس سال انہوں نے دھونس اور دھاندلی سے پورے کیے ، کبھی کسی عدالت نے جرات نہیں کی کہ کسی ڈکٹیٹر کے آگے کھڑی ہو۔
مریم نواز نے کہا کہ ستم ظریفی یہ نہیں کہ منتخب وزیراعظم کو نکالتے رہے ، ستم ظریفی یہ ہے کہ طاقت کے آگے بھی سر جھکایا اور ڈکٹیٹر کے آگے بھی سر جھکایا، منتخب وزرائےاعظم کو نکالتے رہے ، سزائیں دیتے رہے ، سیاسی مقدمات میں باہر پھینکتے رہے ۔ کسی عدالت نے ہمت نہیں دکھائی کہ کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں لائے ،ستم ظریفی یہ نہیں کہ ڈکٹیٹر کے آگے کھڑے نہیں ہوئے ، بلکہ یہ ہے کہ انہیں ڈٹ کر حکومت کرنے دیا۔۔ جب نکالا منتخب وزیراعظم کو نکالا، کل نوازشریف کی بات سنی تھی کہ مجھے وزیراعظم ہاﺅس میں میسج آیا جج کا کہ یہ میرا کام کردو ورنہ اڈیالہ جیل آپ کا انتظار کر رہی ہے، کبھی کسی عدالت نے ڈکٹیٹر کو نااہل کیا ؟جب کیا عوام کے وزیراعظم کو نااہل کیا،جب وہ پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے حلف لے رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر ہاتھ سیٹ سے باندھ کر جہاز میں عدالتوں میں لے جایا جاتاتھا،آپ کا زور صرف عوام کے وزیراعظموں پر چلتاہے ، کبھی کسی نے دیکھا کہ کسی ڈکٹیٹر کو سسلین مافیا کا لقب ملے ، کبھی کسی ڈکٹیٹر کو گاڈ فادر کا لقب ملا ، آپ نے ڈکٹیٹر شپ کو دوام دیا، جب روکا منتخب وزیراعظم اور جمہوریت کا راستہ روکا، ڈکٹیٹر کو جب بھی نکالا عوام اور وکلانے نکالا ۔
مریم نواز نے کہاکہ بڑے ادب سے کہنا چاہتی ہوں کہ چیف جسٹس صاحب آپ کو تب بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا کہ جب منتخب وزیراعظم کو ایک زائد معیاد اقامہ رکھنے پر نکال دیا جاتاہے ، آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب باپ کا ساتھ دینے پر پاکستان کے آئین کیلیے کھڑے ہونے پر لوگوں کی بہو بیٹیوں کو اٹھا کر سزائے موت کی چکیوں میں پھینکا جا تاتھا ، آپ کو تب بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب رانا ثناءاللہ پر منشیات کا شرمناک کیس بنا، جب ضمانت کا کیس تھا جج سن رہاتھا جج اٹھ کر اندر گیا اور واٹس ایپ پر فیصلہ آیا تو جج ہی بدل گیا۔
مریم نواز نے کہاکہ 2018 میں جب آر ٹی ایس بٹھا کر شب خون مارا گیا ، تب آپ جذباتی نہیں ہوئے، جب میں جیل میں تھی، پانچ مہینے جیل میں بے گناہ قید رہی، پانچ 60 دن نیب میں رکھا ، آپ جانتے ہیں وہ ریفرنس آج تک فائل نہیں ہوا، اس وقت آپ جذباتی نہیں ہوئے، جب آپ کے بھائی ججز پر ، وہ جج جنہیں آئین اور قانون پر چلنے کی پاداش میں سڑکوں پر رلنے کیلیے چھوڑ دیا گیا ، میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات کر رہی ہوں ، میں انہیں اور ان کی بیوی کو نہیں جانتی ہوں، لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ وہ حق اور قانون پر چلنے والا جج تھا، وہ عمران خان کے راستے کی رکاوٹ تھا، آج ہمیں فائز عیسیٰ کے ساتھ جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید وہ حکومت کی سپورٹ کر رہے ہیں، جب ان کے خلاف ریفرنس آیا تو اس وقت تو عمران خان کی حکومت تھی ۔
مریم نواز نے کہاکہ تین چار ججز عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، اور باقی اکثریت جو آئین کے ساتھ کھڑی ہے ، ان کی کوالٹی دیکھ لین آپ کو پتا چل جائے گا کہ حق پر کون ہے ۔چیف جسٹس صاحب آپ نے طعنہ دیا جب پارلیمنٹرین کھڑے ہو کر بات کر رہے تھے تو آپ نے طعنہ دیا کہ کل تک جو جیلوں میں تھے آج وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر تقریریں کر رہے ہیں ، وہ جیلوں میں اس لیے تھے کیونکہ آپ کے نظام عدل اس وقت جنرل فیض کی مٹھی میں تھا، وہ جیلوں میں اس لیے تھے کہ جنرل فیض ججز کو ویڈیو دکھا کر ڈراتا تھا اور اپنے من پسند فیصلے لیتا تھا۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران ہر کسی کا نام لے گا، جنرل باجوہ کا نام بھی لے گا، اس کے منہ سے کبھی جنرل فیض کا نام نہیں آئے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تب بھی سہولت کار تھا آج بھی ہے ۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی نظریے کیلیے جیل جانا کتنی بڑی بات ہے، میں سزائے موت کی چکی میں رہی ایک دن بھی نہیں پچھتائی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میرا ایک اصول ، ہے ایک نظریہ ہے ، حق کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتاہے ۔
مریم نواز نے کہا کہ جن کے کوئی اصول اور نظریے نہیں ہوتے، وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے ، آپ دیکھیں کہ آپ نے شہبازشریف سمیت ساری حکومت کو طعنہ تو دیدیا ، ذراء یہ بھی کہا ہوتا کہ کچھ ایسے بزدل بھی ہیں جب انہیں عدالت کا حکمنامہ آتا ہے تو چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے اور جب نکلتے تو منہ پر کالا ڈبہ پہن کر نکلتے ہیں، آپ یقین کریں کہ میں سیاستدان ہوں میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میں ایسا گیدڑ جو اپنے آپ کو لیڈر کہتاہے جب گھر سے نکلتا ہے تو جنگلے والی گاڑی میں سوار ہو جا تا ہے ،وہاں سے اتر کر منہ پر کالا ڈبہ پہن لیتا ہے ، میرے بچے "سپنج باکس سکویئر پینٹس والے کارٹون” دیکھتے تھے ،جیسے ڈیلیوری بوائز نے ڈیلیور ی کیلیے ڈبہ رکھا ہوتاہے ، چیف جسٹس صاحب آپ کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ جو جیلیں بھگت کر آئے ہیں انہوں نے جھوٹے مقدمے بھگتے ، آپ کی ناک کے نیچے بھگتے۔
مریم نواز نے کہاکہ جب سے مقدمے شروع ہوئے ہیں گھر سے نہیں نکلتا ، وہاں پر اقامہ یا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا کیس نہیں ، بلکہ سارے کیس اصلی ہیں،ٹیرین وائٹ ، اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، قوم سے جھوٹ بولا، بار بار الیکشن لڑے، وہ فارم بھرے لیکن اولاد کو ظاہر نہیں کیا، قوم سے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا، اسے پتا ہے کہ عدالت میں پیش ہو گیا تو نہ نگل سکتا ہے نہ ہی اٗگل سکتاہے ، تمہاری ذاتی زندگی میں مجھے کوئی سروکار نہیں، میں اس پر بات نہیں کرتی لیکن یہ جھوٹ تم نے ذاتی زندگی میں نہیں بولا یہ قوم سے بولاہے،ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جا سکتا ہے تو اسے اتنا بڑا جھوٹ قوم سے بولنے پر نکالا نہیں جائے گا؟ توشہ خانہ میں سب نے قانون کے مطابق تحفے خریدے، انہوں نے اور ان کی گھر والی نے بھی تحفے چوری کیے، توشہ خانہ کے تحفے چوری کیئے بلکہ سعودی عرب نے جو خانہ کعبہ والی گھڑی دی تھی وہ بھی دبئی میں جا کر بیچ دیا، اس کا پیسہ فرح گوگلی پراپرٹی ٹائیکون کے جہاز میں رکھ کر پاکستان لے کر آئی وہ کہاں گیا۔
مریم نواز نے کہاکہ اگر جھوٹے مقدمے تھے تو دو دن کی بات ہے، سہولت کار ابھی عدلیہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، جھوٹے تھے تو یہ عدلیہ دو دن میں اڑا کر رکھ دیتی اور کہتی کہ عمران خان آپ بری ہیں، تم بھی جانتے ہوکہ تم نے جرم کیاہے ، تمہارے سہولت کار بھی جانتے ہیں، تم نے جرم کیا ہے، تم بھی جانتے ہو تم مجرم ہوں، یہ عدلیہ بھی جانتی ہے کہ تم مجرم ہو، ایک نیا طریقہ دیکھا چٹکی بجاو اور ضمانت لو، ایک ہی جھکٹے میں 12 ، 12 کیسز میں ضمانتیں، سالوں کی جیل کے بعد ہمار ا بینچ بنتا تھا امید جاگتی تھی کہ شائد ضمانت مل جائے۔
مریم نواز نے کہاہے کہ عمران خان نے اپنی بیٹی ٹیرین وائٹ کو ظاہر نہ کر کے قوم سے جھوٹ بولا ہے ،ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جا سکتا ہے تو اسے اتنا بڑا جھوٹ قوم سے بولنے پر نکالا نہیں جائے گا؟ اگر جھوٹے مقدمے تھے تو دو دن کی بات ہے، سہولت کار ابھی عدلیہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، جھوٹے تھے تو یہ عدلیہ دو دن میں اڑا کر رکھ دیتی اور کہتی کہ عمران خان آپ بری ہیں، تم بھی جانتے ہوکہ تم نے جرم کیاہے ، تمہارے سہولت کار بھی جانتے ہیں۔