واشنگٹن (نیٹ نیوز) امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا سائفر کے معاملے پر کہنا ہے کہ یہ بیانیے کی نہیں جھوٹ کی جنگ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ پہلے وہ (عمران خان) کہتے تھے کہ یہ خط آیا ہے اور امریکہ نے خط کے زریعے میرے خلاف سازش کی ہے، اعلان کرکے تو کوئی سازش کرتا نہیں۔ اس کے بعد پھر یہ ہوگیا کہ جی وہ ہمارے اپنے ہی سفیر کا سائفر تھا وغیرہ وغیرہ۔ سابق سفیر نے کہا کہ ’مختصر سی بات یہ ہے کہ ایک میں بیچارہ رہ گیا تھا جس پر خان صاحب کی نظر عنایت نہیں ہونی تھی، تو وہ بھی ہوگئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (عمران خان) اگر یوٹرن نہ لیتے تو جس اسٹبلشمنٹ پر میں بیس برس سے تنقید کررہا ہوں، جو باتیں میں بیس برس سے کہہ رہا ہوں ہو کہ بھائی پاکستان میں ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہئیے، اور نہ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئیے نہ سیاستدانوں کو فوج کے ساتھ زیادہ عمل دخل کرنا چاہئیے، ان کو اپنا کام کرنے دیں وہ ہمارے ملک کا دفاع کریں جس میں وہ بہت اچھا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیکن خان صاحب تھے اس وقت جو امپائر کی انگلی کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر آپ کو یاد ہو تو کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ کہا کرتے تھے کہ امپائر انگلی اٹھائے اور امپائر سے ان کی مراد پاکستان کی مسلح فوج اور اس کی قیادت تھی۔‘
حسین حقانی کے مطابق ’اب اُن (عمران خان) کا اُن (فوج) کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور اس جھگڑے کے بعد 174 اراکین قومی اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کو ووٹ دے دیا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیچارہ حسین حقانی بیچ میں کہاں سے آگیا، یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، لیکن خان صاحب کی باتوں کا آپ کو پتا ہی ہے کہ ان کی باتوں کو سمجھنے کیلئے، بعض اوقات پیری مریدی میں ایسا ہوتا ہے کہ مریدوں کو اپنے پیر کی بات سمجھ میں آیی ہے کسی اور کو سمجھ میں نہیں آتی، اسی طرح سے خان صاحب کے جو پیروکار ہیں وہی ان کی کہانیاں سمجھتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ریکارڈ کیلئے میں عرض کردوں، خان صاحب کے اقتدار سے ہٹائے جانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔‘
خیال رہے کہ جنوری 2023 کے آخر میں لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے جولائی 2021 میں حسین حقانی کو واشنگٹن میں لابنگ کے لیے ہائر کیا تھا۔
عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ جنرل(ر) باجوہ کا مبینہ ”سیٹ اپ“ اب بھی اسٹیبلشمنٹ میں سرگرم ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔
گزشتہ مہینے آن لائن پوسٹ کی گئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں سی آئی اے کے ایک سابق اسٹیشن مینیجر، رابرٹ گرینیئر کو جولائی 2021 میں واشنگٹن میں پی ٹی آئی حکومت کے لیے لابنگ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا، جس نے پھر حسین حقانی کو ان کے لیے کچھ تحقیقی کام کرنے کے لیے لگایا تھا۔
پہلے میمو اور اب سائفر میں نام آنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کو امریکا کا سیاسی نظام سمجھ میں نہیں آتا، عمران خان کو اگر آپ کو یاد ہوتو کہا نہیں کرتے تھے کہ جی میں مغرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں؟ تو جب وہ مغرب کو سب سے بہتر جانتے تھے تو ایک بیچارہ دو چار کتابوں کا مصنف، ایک یونورسٹی کا پروفیسر، ڈھائی ساڑھے تین سال سفیر رہ چکا، وہ ان کو اقتدرا سے کیسے فارغ کرسکتا ہے۔