نواز طاہر :
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف سرکاری خزانے کو تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی سے قومی خزانے کو پہنچائے جانے والے اس نقصان کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ جو مبینہ طور پر انہوں نے مخصوص افراد کو نوازنے کے لئے پہنچایا۔ جبکہ یہ رقم لاہور ترقیاتی ادارہ ایل ڈی اے کے خزانے میں جمع ہونا تھی۔ نیب کے تفتیشی افسر ڈپٹی ڈائریکٹر انویسٹی گیشن ونگ II حسن نور کی تکنیکی معاونت کے لئے ایل ڈی اے سے فوکل پرسن مقرر کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
نیب کی طرف سے ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو معاونت کے لئے مراسلہ 10 اپریل کو لکھا گیا تھا۔ جس میں لاہور کے ماسٹر پلان میں مبینہ کرپشن کا ریکارڈ فراہم کرنے اور دیگر امور میں معاونت کے لیے کہا گیا ہے۔ تاہم چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود اس میں مزید پیش رفت کی اطلاع نہیں مل سکی۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے ذرائع اس کو امتیازی سلوک اور سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کرپشن کی نفی کرتے ہیں۔ لیکن دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کی کرپشن کے بارے میں بہت سی تفصیلات ان کے قریبی ذرائع اور خاص طور پر سابق پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی نے فراہم کی ہیں۔ انہی معلومات کی روشنی میں سابق وزیراعلیٰ کے خلاف ایک سے زائد مقدمات چلائے جاسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر گزشتہ چار سال کے دوران اور خاص طور پر ایک سال کی کرپشن کی کہانیاں عام تھیں اور معلوم نہیں کہ عمران خان کو چوہدری پرویز الٰہی کی کس بات سے خصوصی اتفاق تھا کہ ان کے پیش رو وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد وہ چوہدری پرویز الٰہی کو غیر معمولی اہمیت دینے لگے تھے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ چوہدری پرویز الٰہی سے نالاں تھے اور ملاقات سے بھی گریزاں تھے۔
جس کی بنیادی وجہ پرویز الٰہی کی جانب سے عثمان بزدار کو ٹف ٹائم دینا تھا۔ مزید یہ کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے خاتمے کی دیگر وجوہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر مختلف رہنمائوں کا لینڈ مافیا بننا اور اس مافیا کو نوازنا بھی شامل تھا۔ یہی نوازش مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی بھی کی جاتی تھی اور اس قانون سازی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کی ایک طرف چاندی رہی تو دوسری جانب یہی مفادات اختلافات کا باعث بھی بنے۔ لینڈ مافیا کے اختلافات میں کچھ دیگر اختیارات کے ساتھ ایل ڈی اے کی کمان حاصل کرنا بھی شامل تھا۔ جو اس مافیا کے لئے سونے کی کان سے بھی زیادہ قیمتی تھا۔
نیب کے مراسلے کے بعد جب ایل ڈی اے کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے گفتگو سے گریز کیا۔ البتہ ایل ڈی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 1985ء کے بعد سے ایل ڈی اے کی سونے کی کان سے ہر کسی نے سونا نکالا ہے۔ جبکہ اس سے قبل 1975ء میں لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کو اپ گریڈ کرتے ہوئے اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری لاہور کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے رہائشی کالونیاں بنانا اور ریگولیٹ کرنا تھا۔ مگر اس ادارے کے قیام کے ساتھ ہی اس کے فلیٹوں کی الاٹمنٹ اور فائلوں کی فروخت، چوری، بدعنوانی شروع ہوئی۔ شہر کا پھیلائو شروع ہوا تو اس کی رہائشی اسکیموں میں سرکاری سرپرستی میں کرپشن کی گئی۔ نوے کی رہائی میں اسے عروج ملا۔ نئی صدی میں تمام حدیں پارہوگئیں اور صرف کرپشن باقی رہ گئی۔
اسّی کی دہائی کے وسط میں ایل ڈی اے میں کلرک بھرتی ہونے والے اظہر کا کہنا تھا کہ، اگر آج بھی ایل ڈی اے کا فارنسک آڈٹ کرایا جائے تو بہت سے طاقتور لوگ جیل میں نظر آئیں۔ لیکن قوانین میں ان کیلئے ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ شکنجے میں نہیں آئیں گے۔ اظہر کا کہنا تھا کہ جس راوی کی لہریں، بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ تک آتی تھیں، ان لہروں کی جگہیں (یعنی چھوڑی ہوئی اراضی) بعد میں لوگوں کے آبائواجداد کی ملکیت کیسے بن گئی؟
سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف نیب نے اب جو تحقیقات شروع کی ہیں، ان میں لاہور کے ماسٹر پلان 2050 میں تین سے سوا تین سو ارب روپے سرکاری خزانے میں نہ پہنچنے کا الزام شامل ہے۔ یعنی اگر مخصوص افراد کو خصوصی اختیارات کے ساتھ نہ نوازا جاتا تو سرکاری خزانے میں تین سو ارب روپے سے زائد جمع ہونا تھے۔ یہ ماسٹر پلان لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت مقدمہ میں جاری سماعت کے دوران دی جانے والی ہدایات کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق لاہور کی آبادی 2050ء میں ڈھائی کروڑ تک بڑھنے کا خیال کرتے ہوئے اس ضرورت کے مطابق نئے گھروں کی تعمیر اور جملہ شہری سہولیات کی فراہمی کی پلاننگ کی جانا تھی۔ اس ضرورت کے پیش نظر لاہور کے اطراف میں 33 ہزار ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی جس میں لاہور کی ترقی اور شہر کے پھیلائو کا رخ راوی کے شمال کی طرف کیا گیا اورلاہور سے ملحقہ ضلع شیخوپورہ کی اراضی بھی حاصل کی گئی۔
جبکہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں لاہور کے ترقیاتی ادارے ایل ڈی اے کو وسعت دے کر اس میں ملحقہ اضلاع قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ اسی دوران راوی لاہور اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) (RUDA) کا منصوبہ بھی برقرار تھا جس میں مشرقی اور شمالی لاہور کو مغربی حصے سمیت شامل کیا گیا تھا۔ مگر ماسٹر پلان کی منظوری سے پہلے ہی اس مجوزہ پلان پر بہت سے لوگ عدالتوں میں چلے گئے جو اپنی زرعی اراضی کمرشل اور ہائوسنگ پراجیکٹس کے لئے دینے کو تیار نہیں تھے۔ ایسی ایک سے زائد رہائشی کالونیوں میں پلاٹوں کی فروخت جاری ہے جو پہلے روڈا اور پھر ماسٹر پلان سے ملتی تھیں۔
ماسٹر پلان کے تحت جو 33 ہزار ایکڑ اراضی حاصل کی گئی، اس میں مبینہ کرپشن کا معاملہ سامنے آنے پر سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے گرین ایریا اور برائون ایریا میں فرق ختم کرنے کے لئے کرپشن کی جس سے قومی خزانے کو سوا تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ تکنیکی اصطلاح میںبرائون ایریا گھروں کی تعمیر کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن گرین ایریا گھروں کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔
البتہ زرعی فارم ہائوس بنائے جاسکتے ہیں۔ الزام کے مطابق ایل ڈی اے کے سربراہ کی حیثیت سے صوابدیدی اختیارات استعمال کرکے گرین ایریا میں بھی رہائشی اسکیموں کی منظوری دی گئی اور گرین سے برائون حیثیت تبدیل کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت بھی معروف لینڈ ڈویلپرز نے گرین ، برائون ایریاز کے ساتھ ساتھ کھادر (دریائی علاقہ) میں رہائشی اسکیمیں بنارکھی ہیں۔ لیکن تمام لوگ طاقتور ہیں اور ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف علاقے میں زمینیں مہنگی اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں۔ بلکہ اراضی مالکان سے بھی رہاستی طاقت کے بل پر کم قیمت پر چھیننے کے اندازمیں خریدی جاتی ہیں۔ ایل ڈی اے کے ذرائع کے مطابق اگر دیانتداری کے ساتھ صرف ایل ڈی اے میں ہی کرپشن اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو ریکوری کی صورت میں آدھا لاہور نیا بن سکتا ہے۔