نواز طاہر :
صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھکاریوں کی آمدنی سوا کروڑ روپے یومیہ سے تجاوز کر گئی ہے۔ جو آئندہ ایک ہفتے میں دو گنا سے بھی زائد ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
لاہور میں اس وقت مجموعی طور پر دو سو سے زائد گداگر گروہ ہیں۔ جنہیں دس الگ الگ افراد مینج کرتے ہیں۔ ان بھکاریوں میں وہ گداگر شامل نہیں۔ جو حالات کے باعث طویل عرصے سے پرانے علاقوں میں مقیم ہیں اور ہر گھر کا دروازہ روزانہ بھی نہیں کھٹکھٹاتے۔ یہ پیشہ ور بھکاریوں اور گروپوں کا حصہ نہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں ان گروہوں کی سرپرستی ٹھیکیداروں کے علاوہ صوبائی محکمہ داخلہ، کمشنریٹ اور دیگر اداروں کے بعض افسران بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسداد گداگری کی مہم بھی باقاعدگی سے چلائی جارہی ہے۔ اس ’’اہم سماجی‘‘ کام میں مصروف ادارے باقاعدہ فنڈز بھی استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی اقدامات صرف کاغذات تک محدود ہیں۔
رمضان المبارک کے آغاز میں گداگروں کی تعداد دیگر بڑے شہروں کی طرح لاہور میں بھی اچانک بڑھ جاتی ہے۔ اس سال بھی اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں پندرہ سے بیس فیصد کم بتائی گئی ہے۔ ’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق نوّے فیصد سے زائد بھکاری کراچی منتقل ہوئے ہیں اور باقی دس فیصد اہم مزارات پر ’’تعینات‘‘ ہیں۔ مختلف گروپوں اور گروہوں سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق اس وقت بھی لاہور کے پوش علاقے سب سے زیادہ بولی پر نیلام ہوتے ہیں۔ اس بولی میں سب سے نیچے لاہور کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ جو ماضی میں ایک دہائی پہلے تک تیسرے اور دو دہائی قبل تک پہلے نمبر پر تھا۔ ذرائع کے مطابق ان بھکاریوں کی ٹرانسپورٹیشن پر ایک سو پندرہ آٹو رکشا، چالیس سوزوکی لوڈرز، دو سو سے زائد چنگ چی، ستر گدھا گاڑیاں اور تیس سے زائد ’تیرہ سو سی سی‘ گاڑیاں متحرک ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں انسداد گداگری کے قانون میں ترمیم کے بعد پولیس کو بھی یہ ذمہ داری دی گئی تھی اور ٹریفک وارڈن ان کے معاون قرار دیئے گئے تھے۔ جبکہ بیس سال قبل بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے چائلڈ ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بیورو بھی بنایا گیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد نظرانداز کیے جانے والے، تشدد کا شکار ہونے والے، بے گھر بچوں کو گداگری کی لعنت سے بچانا اور تعلیم فراہم کرنا تھا۔ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی اس کے مراکز بنائے گئے۔ رمضان کے وسط میں دعویٰ کیا گیا کہ مارچ کے مہینے میں چائلڈ ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بیورو نے تین سو اکسٹھ بھکاری بچوں کو ریسکیو کیا۔
اس ادارے کی پریس ریلیز کے مطابق بیورو کے اہلکار سرکاری چھٹی والے دن بھی بچوں کے ریسکیو کی کارروائی میں مصروف رہتے ہیں۔ تاہم جب چائلڈ پروٹیکسن بیورو سے چیک کیا گیا تو وہاں تین سو اکسٹھ بچوں کی موجودگی ثابت نہیں ہو سکی۔ یہی نہیں۔ بلکہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی ضلعی انتظامیہ نے بھی گداگروں کے خلاف مہم چلانے کا باقاعدہ اعلان کیا اور انتظامی افسروں کو ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔ لیکن لاہور شہر کی تمام شاہراہوں پر اس کے عملی اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شالیمار لنک روڈ پر واقع چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے دفتر سے ایک فرلانگ دوری پر درجنوں بچے مسلسل بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ اس سڑک کی مجموعی لمبائی دو کلو میٹر سے بھی کم ہے۔ یہی پوزیشن کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے باہر کی ہے۔ گورنر ہائوس کے باہر پہاڑی گیٹ کی بھی یہی صورتحال ہے۔
بھکاریوں کا ایک نیا ’’اسپاٹ‘‘ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی آبائی رہائش گاہ زمان پارک بھی بن گیا ہے۔ قبل ازیں یہ بھکاریوں کے کینال روڈ زون کا حصہ تھا اور اب یہ الگ سے یونٹ بن گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی انسداد گداگری مہم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گداگروں کے خلاف سب سے بڑا اور آخری آپریشن نوّے کی دہائی میں ایک مقامی صحافی کے تحرک پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جاوید محمود نے کیا تھا۔ اس وقت تک لاہور میں انسداد گداگری مہم کے دوران پکڑے جانے والوں کو رکھنے کا ایک مرکز بھی قائم تھا۔ جبکہ ’’دارالرحمت‘‘ کے نام سے ایک مرکز مزار داتا گنج بخش سے ملحق تھا۔ ڈپٹی کمشنر جاوید محمود سے ان بھکاریوں کو چھڑوانے کے لیے پہنچنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو بڑی بڑی گاڑیوں پر آئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کے والدین کھلواڑ کر رہے ہیں اور دماغی توازن درست نہ ہونے کی وجہ سے گھر سے روپوش ہو کر بھیک مانگتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو سفارش پر نہیں چھوڑا گیا تھا۔ بلکہ اگلے روز وہ ضمانت پر رہا ہو گئے تھے اور اس کے تیسرے دن پھر سے سڑکوں پر موجود تھے۔ جبکہ ان کے سفارشیوں کے دعوے بھی غلط ثابت ہوئے تھے۔ اس کے بعد جاوید محمود جتنا عرصہ ڈپٹی کمشنر رہے۔ انہوں نے انسداد گداگری مہم پر بات نہیں کی۔ البتہ ان کی سفارشات انسداد گداگری قانون میں شامل کی گئیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لاہور کے ایک اسسٹنٹ کمشنر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’مجھے سرکار کی طرف سے ایک لگژری گاڑی دی گئی ہے۔ لیکن بھکاریوں کے سرپرستوں کے پاس موجود گاڑیوں کے سامنے یہ گاڑی ایک کھلونا لگتی ہے۔ قانون کے تحت میرے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔ لیکن عملی طور پر گداگروں کے گروہ اور ان کے سرپرست مجھ سے بھی طاقتور ہیں‘‘۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’محکمہ داخلہ کو اگر میں سفارشات بھجوائوں گا تو وہ فائلوں میں دبی رہیں گی اور اس کے حکام شام کو ان سرپرستوں کے ساتھ پارٹی میں دکھائی دیں گے‘‘۔ اس انتظامی افسر کے مطابق انسداد گداگری مہم صرف ایک ہفتہ چلائی جائے تو شہر پاک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اخبارات اور انداز ہٹلر کا درکار ہے۔ ورنہ یہ مہم کاغذات تک رہے گی اور گداگروں کی آبادی مسلسل بڑھتی رہے گی۔ ان ذرائع نے بتایا کہ اب بھکاریوں کا ایک نیا انداز دکھائی دیتا ہے۔ جس میں مختلف مقامات پر جوان لڑکیاں ہاتھ باندھے کھڑی دکھاتی دیتی ہیں اور معصوم بچوں کو لیے سڑکوں پر بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہ نئی کلاس بھکاریوں کی نیلامی میں ’’گولڈن‘‘ کہلاتی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔