ساتھیوں نے چھڑانے کیلیے پولیس پر حملہ کیا تھا ،فائل فوٹو
 ساتھیوں نے چھڑانے کیلیے پولیس پر حملہ کیا تھا ،فائل فوٹو

عید پر قتل کرنے والا عید سے قبل مارا گیا

نواز طاہر :
لاہور میں عیدالاضحیٰ پر قربانی کا گوشت کی تقسیم کیلیے پیکٹ تیار کرتی قانون دان کی ماں کو سر میں گولی مار کر جان لینے والا منشیات فروش اس عیدالفطر سے ایک ہفتے پہلے ہی پولیس کی گویوں سے چھلنی ہو کر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جبکہ اس کے گھر کے قریب اور علاقے میں دو طرح کی خوشی کا اظہار دیکھا گیا۔ ایک جانب چھوٹے منشیات فروش باہمی گفتگو میں خوشی کا اظہار کررہے تھے تو دوسری جانب چند فرلانگ کے فاصلے پر قاتل کے انجام تک پہنچنے کے خدائی انصاف خاموشی سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

اس کے علاوہ کچھ ہی فاصلے پر ایک سیاسی جماعت کے ڈیرے پر خاموشی تھی اور وہاں سے اس ہلاکت پر کوئی بات نہیں کی جارہی تھی اور نہ ہی لاش گھر پہنچنے تک اس سیاسی ڈیرے سے کوئی تعزیت کیلئے پہنچا تھا۔ یہ منظر طاق روزوں کے سحری سے افطار تک ہے جو انگوری باغ اسکیم باغبانپورہ کی عقبی آبادی مسلم کالونی، سک نہر روڈ اور سکھ نہر کے تین گھروں کا ہے۔ اور یہ علاقہ بیک وقت ہربنس پورہ ، مغل پورہ اور باغبانپور کی سرحدی حدود ہیں اور منشیات فروشی کے حوالے سے پورے علاقے میں معروف ہیں۔

جن تین گھروں کے باہر یہ منظر تھا، ان میں سے مسلم کالونی کا ایک گھر پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہونے والے منشیات فروش اکرم خان کا ہے جو شالیمار لنک روڈ سے مشرق کی جانب گندے نالے کی تیسری پلی کے بائیں جانب تیسرا بڑا گھر ہے۔ نالہ عبور کریں تو بائیں جانگ سکھ نہر روڈ پر بائیں جانب (عکوٹی پیر عبدالرحمان) ڈیرہ ایک سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں جمشید اقبال چیمہ اور مسرت جمشید چیمہ کا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے مشرق مغرب میں ایک گلی میں تیسرا گھر ہے جو گذشتہ سال عید الاضحی کے دوسرے روز قتل ہونے والی خاتون کا ہے۔

گزشتہ سال عیدالاضحی کی عصر کے وقت اچانک گولی چلی اور محلے میں شور مچ گیا کہ اکرم خان نے مائی کو گولی مار دی اور بیٹے کو بھی زخمی کردیا۔ اکرم خان گولی مارنے کے فوری بعد اپنے گھر آیا ، گندے نالے پر اپنے ’’کارنامہ‘‘ کی کہانی اکڑ کر سنائی، جہاں اتوار کو اس کا جسم بے حس پڑا تھا۔ اس واردات کے بعد پولیس معمول کے مطابق تاخیر سے پہنچی، جو مزید تاخیر بھی کرتی۔ لیکن پولیس ایمر جنسی ایک سو پندرہ ( ون فائیو) کی کال پر کچھ اہلکار پہنچ چکے تھے۔

پولیس کے تاخیر سے آنے کہ وجہ مقامی پولیس اور خاص طور پر ایس ایچ او مغل پورہ کی کی مبینہ پشت پناہی حاصل ہونا بتائی جاتی ہے۔ اس قتل کی ایف آئی آر بھی روایتی ایف آر کی طرح تھی اور بیانات بھی ویسے ہی سامنے آئے تھے۔ سب سے پہلی کہانی یہ بیان کی گئی تھی کہ مقتولہ خاتون نے منشیات فروشی پر منع کیا تو ملزم نے گولی ماردی۔ دوسری کہانی یہ تھی کہ خاتون کا بیٹا بھی ملزم کے دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔ تیسری کہانی یہ تھی کہ ملزم مقتولہ کے گھر پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے اتروانا چاہتا تھا۔

مقامی لوگوں نے ان سب کے برعکس جس کہانی کی تصدیق کی، وہ تینوں کہانیوں کا ملغوبہ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اکرم خان کے دوست آصف متین کا گھر طارق سہیل کے گھر سے ملحقہ ہے اور کوئی غیر معمولی علیک سلیک بھی نہیں تھی۔ بلکہ یہ الگ تھلگ کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے جنہوں نے اپنے گھر کے تحفظ کیلئے سی سی ٹی کیمرے لگارکھے تھے۔ اکرم خان یہ کیمرے اتروانے کیلئے زوردیتا تھا اور انکار پر دھمکی تھی کہ وہ طاقت کے بل پر یہ کمیرے اتروادے گا، بصورتِ دیگر جانی نقصان کرے گا۔ ان دھمکیوں کے باعث مقتولہ نے اپنے قانون دان بیٹی کے مشورے سے پولیس کو تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔ لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ صدف انایہ نے وضاحت کی تھی کہ مغل پورہ تھانے کا ایس ایچ او ذکا ہی اکرم کا اصل سرپرست ہے۔

پولیس کے مقامی مخبر وں کا کہنا ہے کہ اصل طاقت مخبری اور منتھلی کی ہے۔ اکرم خان بیک وقت پولیس کا مخبر اور منشیات فروش تھا اور سیاسی طور پر وی پی ٹی آئی کا ورکر تھا، جس نے سنہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی اہم کردار ادا کیا اور بعد میں بھی متحرک رہا۔ اسی بنا پر اسے علاقے غیر میں درے میں ( صوبہ خیبر پختونخوا کا موجودہ انتظامی حصہ) پناہ ملی ہوئئی تھی اور وہ اپنے دھندے کے ماسوا نہیں آتا تھا اور دھندے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ اسے کچھ مقامی مخبروں سے بھی مسائل کا سامنا تھا۔ اسے آخری بارکچھ لوگوں نے زمان پارک میں بھی دیکھا تھا لیکن آپریشن کے بعد وہ گندے نالے پر صرف پولیس کے کچھ مخبروں سے ملا تھا اور پھر روپوش ہوگیا تھا۔

ایک ہفتے سے یہ اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ اکرم خان کو درے سے گرفتار کرلیا گیا ہے اور وہ پولیس مقابلے میں مارا جائے گا۔ لیکن یہ اطلاعات بھی تھیں کہ درے کے پناہ گزین اسے چھڑوانے کیلئے پولیس سے رابطے کررہے ہیں اور اسے چھڑوالیں گے۔ انہی اطلاعات کے دوران گندے نالے ، مسلم کالونی ، انگوری باغ ، باغبانپورہ اور کوٹی پیر عبدلرحمان کے علاقون میں یہ اطلاعت بھی گردش کررہی تھیں کہ اسے درے کے لوگ چھڑوانے کیلیے پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اگلے روز ہی انہی علاقوں میں ایک تصویر زیر گردش رہی کہ اکرم خان پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ لیکن یہ تصویر کسی مشابہہ کی تھی۔

طاق روزوں کی سحری کے وقت جب ایک جانب سحری کیلیے روزداروں کو جگانے والی ٹولیوں کی ثناخوانی گونج رہی تھی تو اسی وقت اکرم خان کے گھر سے بھی ایک چیخ بلند ہوئی جو اکرم خان کی ہلاکت کی تصدیق تھی۔ اسی وقت اکرم خان کی ہتھکڑیوں سمیت بے حس و حرکت جسم کی تصویر تھی، اس کے ساتھ ہی یہ تصدیق پورے علاقے میں ہوچکی تھی۔ ملزم کی سی آئی اے کی کوششوں سے گرفتاری کی اطلاعات تھیں اور یہ اطلاعات بھی تھیں کہ وہ زمان پارک سے ہی ٹریس ہوا تھا۔ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی نگرانی کی جاتی رہی اور آٹھ روز پہلے اسے درے سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس کی بھی پولیس کے ریکارڈ سے تصدیق ہوتی ہے لیکن دوران تفتیش پولیس کے محکمے میں جو اس کے جرائم میں معاونین تھے، ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پشت پناہی کرنے والے ہر صورت اسے چھڑانا چاہتے ہیں اور کچھ مراونا بھی چاہتے تھے۔ اسی دوران وہ وہ مارا گیا۔ مقامی لوگوں کی اطلاعات کے مطابق اسے چھڑوانے والے زیادہ متحرک تھے ، اور اس کے پاس ایک سے زائد افراد کے قتل کے راز اور شہادتیں تھیں اور وہ خود بھی اجرتی قاتل بن چکا تھا اور ایک اسنائپر گروپ کا حصہ تھا۔ پولیس کی طرف سے جاری کیے جانے وا لا بیان مقامی اطلاعات کے قریب تر قراردیا جاسکتا ہے۔

اس بیان کے مطابق سی آئی اے کے سب انسپکٹر محمد نواز کی قیادت میں پولیس پارٹی ملزم اکرم خان کو کاہنہ سے مناواں کے علاقے میں اسلحے کی بازیابی کیلیے جارہی تھی۔ جس پر بھینی روڈ پہنچے تو دو نامعلوم ملزمان ہنڈا 125 پر آئے اور اس کو چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کردی، جس کے زد میں آکر ان کا اپنا ساتھی ملزم اکرم خان شدید زخمی ہو گیا اور کانسٹیبل عمر حیات 12963/C متعینہ CIA کاہنہ بھی زخمی ہو گیا جبکہ حملہ آور موٹر سائیکل چھوڑ کر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ زخمیوں کو مناواں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ملزم اکرم خان کی موت واقع ہوگئی، جبکہ زخمی کانسٹیبل عمر حیات زیر علاج ہے۔ موٹر سائیکل کی پڑتال جاری ہے۔ مقامی پولیس مصروف کاروائی ہے۔