نواز طاہر :
بھارت میں جہاں ایک جانب انتہا پسندی اور مسلمانوں پر جبر بڑھتا جارہا ہے تو دوسری طرف امن کے دین کی آفاقی، آخری کتاب قرآن پاک کی اشاعت اور تلاوت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اشاعتی اداروں کے بعد ترسیل و تقسیم کا نظام بڑھتی مانگ کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اور قرآن پاک کی طلب و تلاوت میں اضافے کی تصدیق تقسیمِ ہند سے قبل قائم اشاعتی ادارے کے سربراہ نے کی ہے۔
یہ ادارہ تقسیم کے وقت لاہور کے سرکلر روڈ سے بھارت کے شہر امرتسر میں قائم تھا۔ تاہم لاہور میں اب بھی اس کے آثار و نقوش ملتے ہیں۔ اس ادارے کے لاہور مرکز کو تقسیم ہند کے وقت سردار موہن سنگھ کھلا چھوڑ کر امرتسر منتقل ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی یادیں اسی شہر، ادارے، شاہراہوں اور گلیوں بازاروں سے جڑی رہیں اور وہ یہ یادیں اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کر گئے۔ سردار موہن سنگھ کے صاحبزادے سردار سریندر سنگھ آزاد اب یہ اشاعتی مرکز چلاتے ہیں۔ وہ سکھ یاتریوں کے ساتھ لاہور پہنچے تو ان کی ’’امت‘‘ کے ساتھ بھی خصوصی نشست رہی۔ اسی نشست میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت کے تمام شہروں میں قرآن پاک کی طلب رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
لاہور پریس کلب کی ظہیر کاشمیری لائبریری اور اس کے بعد ’’کلاس روم‘‘ (ایک مخصوص کمرہ) میں پنجابی شاعر ڈاکٹر بابا نجمی کی موجودگی میں سردارسریندر سنگھ آزاد سے ہونے والی گفتگو میں سردار سریندر سنگھ نے بتایا کہ وہ جب اپنے ادارے میں موجود ہوتے ہیں اور کوئی ان سے قرآنِ پاک کا نسخہ طلب کرتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ دھو کر احترام کے ساتھ بالائی مقام سے اٹھا کر یہ مقدس کتاب طلبگار کو پیش کرتے ہیں۔ وہ بابا نجمی کیلئے بھی بھارت سے قرآن پاک کا نسخہ ہی تحفہ لائے تھے اور انہوں نے قرآن کی فضیلت اور اس سے اپنی عقیدت کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے والد کی نصیحت تھی کہ کسی کو تحفہ دینا ہے تو پھر قرآن پاک پیش کرو۔
سردار سریندر سنگھ آزاد، بابا نجمی کی کتاب اپنے ادارے کے زیر اہتمام دوبارہ شائع کرنے کیلئے اجازت نامہ لینے کی غرض سے پاکستان آئے تو لاہور پریس کلب میں ان کے ساتھ ایک نشست رکھی گئی۔ اسی ملاقات میںجب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں پبلشنگ کے کاروبار میں سب سے زیادہ مانگ کن کتابوں کی ہے اور رحجان کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’قرآن پاک کی طرف رحجان زیادہ ہے۔
ہم اپنے ادارے میں قرآن پاک بالائی شیلف میں رکھتے ہیں اور اسے ہاتھ لگانے سے پہلے اپنے ہاتھ پاک صاف کرتے ہیں۔ قرآن پاک کو سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کی کتاب گرنتھ صاحب کی طرح محترم و مقدس سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح بابا گورو نانک نے قرآن پاک اور صوفیا سے گیان لیا۔ ہمارے سکھ بھائی بھی قرآن پاک کی آیات پڑھ کر گیان دیتے ہیں‘‘۔
سب سے زیادہ طلب رکھنے والی مقدس کتاب کے حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے سردار سریندر سنگھ آزاد نے بتایا کہ ’’قرآن پاک کے عربی کے ساتھ ساتھ اب پنجابی، ہندی، ملائی، بنگالی سمیت تمام مقامی اور ماں بولی کا درجہ رکھنے والی زبانوں میں شائع کیا جاتا اور پڑھا جاتا ہے۔ یہ اس کی مقبولیت، ضرورت اور اہمیت کا ثبوت ہے‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں تو مسلمانوں کیخلاف انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں قرآن پاک کی طلب بڑھنے اور قرآن پاک کے نسخے کس طرح پیش کر پاتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’’مقدس کتابوں کی اپنی برکت، اہمیت اور افادیت ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ قرآن پاک کا محافظ کون ہے؟ ہمیں ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا کبھی بھی۔ اسے پڑھ کر ہی گیان دیے جاتے ہیں‘‘۔
قرآن پاک کی پبلشنگ اور ہدیہ کے حوالے سے سوال پر سردار سریندر سنگھ آزاد نے بتایا کہ ’’لاہور کی تاج کمپنی کو بھارت میں تاج کمپنی نے کاپی کیا اور طباعت کیلیے سب سے زیادہ وہی نسخے طلب کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک قرآن پاک کے ہدیے کا تعلق ہے تو اس کا ہدیہ تو کوئی دے ہی نہیں سکتا۔ نہ ہی کوئی ایسا سوچ سکتا ہے۔ نہ ہی اس پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس موجود قرآن پاک کے کسی نسخے پر ہدیہ درج نہیں ہوتا اور نہ ہی گرنتھ صاحب پر ہدیہ درج کیا جاتا ہے‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں سردار سریندر سنگھ آزاد نے کہا کہ ’’قرآن پاک تو بہت عظیم کتاب ہے۔ دیگر انقلابی کتب کی بھی مانگ ہے۔ جس کتاب میں انسانیت کی بات ہوگی۔ اسے معاشرہ آج بھی دیگر سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ علامہ اقبال کو بھی ویسا ہی پڑھا جاتا ہے۔
بابا نجمی کی کتاب ’میں اقبال پنجابی دا‘ کو بڑی پذیرائی ملی۔ ادب کے تخلیق کاروں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی کتب عارضی ہوتی ہیں۔ اصل مقام بھائی چارے اور امن اور انقلابی کتابوں کا ہے۔ یہ سب سے بڑی سفارتکاری ہے۔ جو دونوں ملکوں میں سانجھ بڑھا رہی ہے۔ اس میں پنجابی ادب کا اپنا ایک خاص حصہ اور نمایاں مقام ہے۔ جس نے پنجاب کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ابہام دور کرکے محبت کی سفارتی سواری میں بٹھانے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اگر ریاستوں و سرکاروں کے مسائل حل ہوجائیں، ویزا آسان ہوجائے تو یہ محبتیں مزید آگے بڑھ سکتی ہیں۔ جو ہمارے معاشی مسائل کے حل میں بھی معاون ہوسکتی ہیں۔ اس وقت اگر میں لاہور میں موجود ہوں تو پاکستان کی سرکار کی مہربانی ہے کہ ہم نے بابا جی کے گھر کی یاترا بھی کرلی اور لاہور بھی دیکھ لیا۔ یہاں ہمیں بہت محبت پیار ملا۔ لگتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا دیس ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں کے بسنے والوں کی محبت میں اضافہ فرمائے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے سردار سریندر سنگھ آزاد کی آنکھیں بھیگ گئیں اور آواز بھرا گئی کہ وہ کل (جو یہ سطور لکھے جانے تک گزر چکا) پاکستان کے مغربی پنجاب سے واہگہ کے راستے بھارت کے مشرقی پنجاب میں چلے جائیں گے۔ اس سے پہلے وہ لاہور کی سڑکوں اور گلیوں پر ایسے گھوم رہے تھے۔ جیسے یہیں پیدا ہوئے ہوں اور بالوں میں سفیدی بھی یہیں آئی ہو۔