بزرگ اور بچے کی سوچ میں فرق ہوتا ہے، فائل فوٹو
بزرگ اور بچے کی سوچ میں فرق ہوتا ہے، فائل فوٹو

 مولانا فضل الرحمن کا عمران خان سے مذاکرات کرنے سے صاف انکار

ڈی آئی خان : پی ڈی ایم کے صدر اور  امیرِ جمعیت علمائے پاکستان مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پہلے بندوق اور اب ہتھوڑے کے سامنے مذاکرات کا کہا جا رہا ہے۔ کب تک اس طرح گمراہ کیا جاتا رہے گا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں مرحوم مفتی عبدالشکور کی تعزیت کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آج بلاول بھٹو مفتی عبدالشکور کی تعزیت کیلیے آئے، لیکن سیاسی لوگ بیٹھتے ہیں تو سیاسی باتیں بھی ہوتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جس عدالت پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اس کے سامنے کیوں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ عمران خان کو سیاست کے لیے اہل بنانے کی کوشش کررہی ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان کے امیر نے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کو اس کا اہل نہیں سمجتھے ہیں کہ ان کے ساتھ بات چیت کریں۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اور وزرا نے فون پر بات کی ہے، میری بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے بات ہوئی، عدالت کہہ رہی ہے کہ عمران خان سے بات کریں، اور الیکشن پر اتفاق رائے کریں، ہمیں ہتھوڑے کے ذریعے کہا جا رہا ہے کہ بات چیت کریں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ عدالت کواپنی پوزیشن کلیئرکرناہوگی، جس شخص کو نااہل ہونا تھا عدالت اسے سیاست کا محور کہہ رہی ہے، ہم عمران خان کوجرائم کی بنیاد پر نااہل سمجھتے ہیں، جس شخص کو سیاست میں ہی نہیں ہونا چاہیے اس سے کیسے مذاکرات کریں، ایک شخص کو خوش کرنے کیلیے پوری قوم کو مشکل میں ڈالا جارہا ہے، عدلیہ واضح فریق بن گئی ہے، استعفیٰ دے سیاست میں آئے۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، اس بینچ پر پارلیمنٹ میں کئی قراردادیں منظور ہوئی ہیں، عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام کرنا ہوگا، ہم اس پورے عمل کو غیرسیاسی سمجھتے ہیں، ہم نے کہا عدالت واضح کرے کہ عدالت ہے یا پنچایت، جبری فیصلے مسلط کیے تو عوام کی عدالت میں جائیں گے

پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ فریق بن چکی ہے اور 14 مئی میں پھنسی ہوئی ہے۔ عدالت اب کیوں راستہ مانگ رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چیف جسٹس آپ معزز کرسی پر بیٹھ کر ہمیں ذلیل کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو لچک پیدا کرنی چاہیے۔ جب عمرن خان کے لیے لچک پیدا ہوسکتی ہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں، ایک شخص کو خوش کرنے کیلئے سب کو پریشان کیا جا رہا ہے۔