نواز طاہر :
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات اور سپریم کورٹ میں اچانک پیشی کے بعد حکمران اتحاد میں دکھائی دینے والے اختلاف رائے کے پیشِ نظر پی ڈی ایم عید الفطر کے بعد سپریم کورٹ اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے الیکشن کے حوالے سے نئی حکمتِ عملی تیار کرے گی۔ جس میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے نیا موقف سامنے آسکتا ہے جو ممکنہ طور پر اس رنگ میں انکار ہوسکتا ہے کہ معاملات پارلیمانی انداز میں ہی نمٹانے پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے حوالے سے مقدمے میں اچانک سیاسی جماعتوں کی قیادت کو سپریم کورٹ میں بلائے جانے پر کچھ جماعتوں کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے اور کچھ کے واضح انکار کے بعد یہ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں میں اختلافِ رائے ہوگیا ہے، جو ان کے تتر بتر ہونے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ لیکن ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ اختلافِ رائے ہونا الگ بات ہے اوراس کا اتحاد پر اثر انداز ہونا علیحدہ معاملہ ہے۔ اختلافات سے حکمران اتحاد کو کوئی خطرہ لاحق ہے اور نہ ہی اجتماعی فیصلے کی کسی روگردانی کا امکان ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ کے روبرو پی ڈی ایم کی کچھ جماعتوں نے پیش ہونے کے بجائے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس پیشی و عدالتی امور کو موجودہ دنوں میںغیر ضروری اور غیر مناسب قراردیا۔ کچھ جماعتوں کی نمائندگی ان کی انتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے کی۔ مجموعی طور پر پی ڈی ایم کی طرف سے ادھوری نمائندگی کی گئی اور ادھورا بائیکاٹ کیا گیا۔ پی ڈی ایم کی مرکزی جماعت جمعیت العلمائے اسلام ( ف ) نہ صرف عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنی، بلکہ اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دو ٹوک کہا کہ وہ عدالتی پنچائتی کردار کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اور نہ ہی ایسے عمل کا حصہ بننے کیلیے تیار ہیں جو عمران خان جیسے کرپٹ شخص کو سہولت کاری فراہم کرتا نظر آرہا ہو اور اس کے ساتھ مذاکرات کیلیے بٹھانے کا متمنی ہو۔
اس کے برعکس پی ڈی ایم کی دوسری بڑی اور مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے نہ صرف بھرپور نمائندگی کی گئی، بلکہ اس جماعت کے رہنما سردار ایاز صادق نے بلوچستان عوامی پارٹی (مینگل) کی نمائندگی بھی کی۔ جبکہ مسلم ن کی اپنی نمائندگی خواجہ سعد رفیق نے کی۔ حکمران اتحادی جماعتوں میں سے سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی بھر پور نمائندگی کی گئی۔ لیکن بعد پارٹی کے چیئرمین نے عدالتی کارروائی اور پی ڈی ایم اور حکومت اتحادیوں کے اجتماعی نکتہ نظر کی بھی وضاحت کی۔ جس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ حکومتی اتحاد عدلیہ کے تحفطات بھی دور کرے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے اچانک نوٹس کے بعد ہنگامی حکمتِ عملی طے کی گئی تھی، جس میں سو فیصد مشاورت نہیں ہوسکی تھی، جس کی تصدیق مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کے سربراہوں میں ابھی حتمی مشاورت نہیں ہوسکی اور یہ حتمی مشاورت عید کے بعد ہونا ہے۔ اسی دوران حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے بطور جماعتیں اپنا اپنا موقف پیش کیا ہے۔ یہ موقف تمام جماعتیں، پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی مٹینگ میں بھی پیش کریں گی جس کے بعد مکمل جائزہ لے کر مشترکہ حکمتِ عملی طے کی جائے گی جس کا مرکزی نکتہ ایک ہی روز میں پورے ملک میں الیکشن کا انعقاد ہوگا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے قریبی ذرائع کے مطابق عمران خان ابھی بھی مذاکرات اور الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے یکسو نہیں، بلکہ ڈبل مائنڈڈ ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ بیک وقت دو طرح کی فیڈنگ ہے۔ ایک یہ کہ انہیں کسی صورت پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی عدالت کی طرف سے دی جانے والی تاریخ پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا۔ اور دوسرا یہ کہ انہیں کسی وقت بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے وہ مذاکرات کاعمل آگے بڑھائیں تاکہ ان کی انتخابی مہم بھی چلتی رہے اور وہ ممکنہ گرفتاری سے بھی محفوظ رہیں۔ لیکن اس کے لئے انہیں ایسی گارنٹی نہیں مل رہی کہ ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں پیش رفت الیکشن تک رک جائے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق عمران خان کے بارے میں پی ڈی ایم کی دو مرکزی اور بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور جمعیت العلمائے اسلام کی مرکزی قیادت ایک پیج پر ہیں۔ تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں کو بھی نظر انداز یا ناراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ معاملہ سربراہی سطح پر حل ہوسکتا ہے۔
اتحادی حکومت میں شامل ایک جماعت کے بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہماری قیادت ہی فیصلے کا اختیار رکھتی ہے۔ لیکن ابھی تک ہماری قیادت سے اس ضمن میں کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی مشاورت ہوئی ہے۔ اس لئے آن دی ریکارڈ کوئی بات نہیں کرسکتے۔ لیکن ہمارے تحفظات ہیں کہ ایک بار پھر ساری بساط عمران خان کیلئے بچھائی جارہی ہے جو ہمیں قبول نہیں۔ جہاں تک ہیجانی کیفیت کو جواز بنانا ہے تو ہم ( بلوچستان ) اس صورتحال سے کبھی نکلے ہی نہیں۔ ہم بھی امن اور استحکام کا خواب دیکھتے ہیں۔ یہ خواب پورے ملک میں پھیلا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگر انصاف کے مساوات کے سنہرے اصول کیلئے ہمیں کسی قربانی دینے کیلئے کہا جاتا ہے تو تیار ہوسکتے ہیں۔ مگر بات اصول کی ہونا چاہیئے۔‘‘ مسلم لیگ ن کے مقامی ذرائع کے مطابق لیگی قیادت نے عدالتی بائیکاٹ نہیں کیا۔ یہ ایک عمل کا حصہ ہے، لیکن اگر اس عمل میں مثبت صورتحال کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہوتا تو ہم لوگ اس وقت انتخابی مہم چلارہے ہوتے۔