لاہور(بیورورپورٹ)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے سب کو دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا، بہتر ہوگا وہ عوام سے بھی براہ راست اعتماد حاصل کریں، چیف جسٹس نے جو گیند اپنی جیب میں ڈالی ہے وہ در اصل ان کے سر پرہمالیہ کا پہاڑ ہے، ایوان اور عدلیہ تاحال ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں، غزل جواب آں غزل کی سی صورت ہے، آئین تختہ مشق، ہرکوئی اپنی تشریح کررہا ہے اور سارے بحران میں نقصان عوام کا ہورہا ہے، جن کے مسائل عدالتوں میں سنے جارہے ہیں نہ پارلیمنٹ میں زیربحث ہیں۔ جماعت اسلامی نے الیکشن سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے مذاکرات کی بات ہے اور صدق دل سے عوام اور ملک کے مفاد کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر بٹھانے کی کوشش کررہی ہے، ہم چاہتے ہیں قوم سے فیصلہ لیا جائے، ملک میں ماضی کی طرح جھرلو الیکشن نہ ہوں، ادارے مکمل غیر جانبداری دکھائیں اور عوام آزادانہ طور پر اپنے لیے وہ قیادت منتخب کریں جو ملک کو خوشحالی، امن دے سکے اور اسے کلین گرین پاکستان بنائے۔ منصورہ میں سیکرٹری جنرل امیرالعظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہیں جو اپنے حقیقی مینڈی ٹ” الیکشن تیاری“ کے علاوہ باقی سبھی کاموں میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ سوات دھماکہ ہوا، خیبر پختوانخواہ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے، بلوچستان کا آتش فشاں پھٹ رہا ہے، عوام مہنگائی کے طوفان سے لڑرہے ہیں مگر مجال ہے پارلیمنٹ میں ان مسائل پر بات ہورہی ہو، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی لڑائی نے ملک کو بند گلی میں دھکیل دیا، وزیراعظم نے اسمبلی میں 2018 کے الیکشن کا آڈٹ کروانے کا مطالبہ کیا، حیران ہوں وہ کس سے مطالبہ کررہے ہیں، جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ آنے والے انتخابات اس طرح ہونے چاہییں کہ کسی کو نتائج پر اعتراض نہ ہو، پنجاب میں الیکشن ہونے سے قبل ہی متنازع ہوچکے ہیں، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن کے اندر الیکشن کی بات ہے، یہ معاملہ پہلے ہی105 دنوں پر چلا گیا، تجویز دی ہے اب اگر ابھی فریقین متفق ہوجائیں تو کیا پورے ملک میں بیک وقت انتخابات205 دنوں تک لے جانے کا راستہ بھی نکل سکتا ہے، الیکشن کے لیے کسی ایک فریق کا نہیں، تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ضروری ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ بدقسمتی سے چیف جسٹس کے سو موٹو پر اختلاف پیدا ہوگیا اور فیصلہ کو پوری قوم کا مکمل اعتماد نہ مل سکا، پارلیمنٹ نے اسے مسترد کر دیا، ججز بھی تقسیم ہیں،ہم نے شروع میں ہی مطالبہ کیا تھا کہ مسئلہ پر فل کورٹ بلا لیا جائے۔ چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیں، ڈائیلاگ کئی بارہوں اورمنزل نہ ملے تو پھر بھی ڈائیلاگ کا ہی حامی ہوں، مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے، پہلے کوئی بیٹھنے کو راضی نہیں تھا، جماعت اسلامی نے ملکی مفاد کی خاطر کوششوں کا آغاز کیا، وزیراعظم شہباز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقاتیں کی، سب پر واضح کردیا کہ الیکشن کی ایک تاریخ پر مذاکرات ناکام ہوئے تو کوئی اور فائدہ اٹھا لے گا، 77 ء میں بھی یہی ہوا تھا، رویوں میں لچک پیدا کرنا ہو گی،سیاسی ہو یا مذہبی، انتہاپسندی دونوں صورتوں میں خطرناک ہے، ملک کے اصل وارث عدلیہ، سیاسی جماعتیں یا اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ23 کروڑ عوام ہیں، لیکن وہی بھگت رہے ہیں، ملک کے اکثریتی سیاسی رہنما وی آئی پی ہیں انہیں بھی فرق نہیں پڑتا، غریب کا جینا تو کیا مرنا بھی مشکل ہوگیا ہے، کفن کے کپڑے سے لے کر روٹی تک ہر بنیادی ضرورت کی قیمت آسمان پر چلی گئی، لاہور میں نان30 روپے کا ملتا ہے، ایٹمی پاکستان کے عوام آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے ہیں، خطے کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے، قرضہ بڑھ رہا ہے، کرنسی ڈوب رہی ہے، سیاستدان، ادارے ہوش کے ناخن لیں، قوم کو فیصلہ کا موقع دیا جائے۔