کراچی (امت نیوز) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج آزادی صحافت کا دن منایا جارہا ہے، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو صحافیوں کے خطرناک اور غیر محفوظ ترین شمار کیےجاتے ہیں ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ایک سو ستر پاکستانی صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔
آج آزادی صحافت کا عالمی دن ہے تاہم یہ دن پاکستان میں آزادی صحافت پرسوالیہ نشان ہے،پاکستان میں آمریت ہو یا جمہوریت ،آزادی صحافت ہر دور میں خواب ہی رہی ۔گذشتہ 3 دہائیوں کے دوران صحافی 70 سے زائد دہشتگرد حملوں کی زد میں آئے ۔جبکہ 170 کے قریب فرض کی ادائیگی کے دوران مختلف واقعات میں جان سے چلے گئے ۔
ملک میں صحافت اور صحافی غیر محفوظ ہیں جبکہ اربارب اختیار کو شاید پرواہ ہی نہیں ، صرف 2022 کی بات کی جائے تو ہراساں کرنے اور حملوں کے 140 کیسز سامنے آئے، جن میں 8 خواتین صحافی بھی شامل ہیں ۔ گذشتہ ایک سال میں صحافیوں کیخلاف 56 واقعات کے ساتھ اسلام آباد پہلے، 35 واقعات کے ساتھ پنجاب دوسرے اور 32 کیسز کے ساتھ سندھ تیسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان میں 170 کے قریب صحافی لائن آف ڈیوٹی مارے گئے ،بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف دو صحافیوں کا کیس منطقی انجام تک پہنچا، ایک توظاہر ہے ڈینئل پرل تھے، امریکی صحافی اور دوسرا ولی خان بابر کا کیس تھا باقی کسی کیس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہے۔
دباؤ دھونس اور دھمکیاں جھیلتے صحافی ہر لمحہ جان لیوا خطرات میں ہی گھرے نہیں رہتےہیں،بلکہ اکثر مار بھی دیئے جاتے ہیں،ان ہی وجوہات کی بنا پرپاکستان صحافت کیلئے خطرناک ترین مملک کی فہرست میں شامل ہے ۔
صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے کہا ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جو جان سے گئے ،انہیں مر کر بھی انصاف نہ ملا ۔اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ ارباب اختیار کو شائد اس کی کوئی پرواہ بھی نہیں ۔
افضل بٹ کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا جو ہےوہ پاکستان کو صحافت کے لئے دنیا کے چار خطرناک میں تو شمار کرتی ہے تاہم لیکن پاکستان کی پولیٹیکل پارٹیز، خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں، انہوں نے ہمارا یہ مطالبہ نہیں سنا جس کا ہمیں افسوس ہے اسپیشل ٹریبونل بنادیں، تاکہ کوئی صحافی مارا جائے تو اس کے قاتلوں تک پہنچا جاسکے۔