نواز طاہر :
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے آبائی گھر زمان پارک پر لگے تقریباً تمام کیمپ ان دنوں خالی پڑے ہیں اور عمران خان کی گرفتاری سے بچائو کیلیے بسائی جانے والی’’خیمہ بستی‘‘ بھی تلپٹ ہوگئی ہے۔
پارک میں گھاس پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ اب وہاں جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا ہونے سے دور دراز سے آئے ہوئے کارکنوں کیلیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ جنہیں دور کرنے کیلیے پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداران کی جانب سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ گزشتہ رات بھی سو، سوا سو کے قریب کارکن شب بسری کیلیے چٹائیاں تلاش کرتے دیکھے گئے۔ ان کارکنوں کو قائدین سے گلہ ہے کہ وہ طوطا چشم ثابت ہو رہے ہیں۔
لاہور میں عمران خان کے لمبی مدت سے ڈیرا لگانے پر زمان پارک ایک میلے کا سا منظر پیش کرتا رہا۔ لیکن انتخابی ٹکٹوں کی بندر بانٹ ختم ہونے کے بعد سے کارکنوں کی دلچسپی انتہائی کم ہوگئی ہے۔ کارکنوں کی تعداد میں کمی پنجاب اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے میں ہی کم ہوگئی تھی اور اس کے بعد کچھ امیدواروں کو ٹکٹ نہ ملنے پر ان کے احتجاج ختم ہونے کے بعد تو تمام رونق ہی ختم ہوگئی۔ مگر بارش کے باعث زمان پارک کی ’’خیمہ بستی‘‘ مکمل طور پر اجڑ گئی۔
کینال پارک پر لگ بھگ تمام کیمپ خالی دیکھے گئے۔البتہ خال خال کیمپوں میں چند کارکن موجود تھے۔ سائونڈ سسٹم مکمل طور پر خاموش اور کنٹینر بے آباد کھڑا دیکھا گیا۔ وہاں موجود رضاکار بھی معمول کے برعکس پُر سکون رہے اور گھنٹوں وہاں عمران خان زندہ باد کی آواز نہیں سنی گئی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جمعرات سے ساری سرگرمیاں اسلام آباد میں رہی ہیں۔ عمران خان خاموشی سے لاہور ہائیکورٹ پہنچے۔ جہاں سے انہیں خلافِ توقع ریلیف نہیں ملا۔ بلکہ پولیس کے پاس تفتیش کیلئے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی۔
ان کارکنوں کے مطابق یہ غیر معمولی صورتحال ہے۔ اگر دس روز پہلے ایسی صورتحال ہوتی تو شاید اس کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہوتے۔ کچھ کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیاسی ماحول میں مذاکراتی عمل کے علاوہ موسم بھی زمان پارک خالی دکھائی دینے کا موجب بنا ہے اور جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگیا ہے۔ زمان پارک میں طویل عرصے تک سابق مسیحی رکن پنجاب اسمبلی کے کیمپ میں کام کرنے والے کارکن محمد ادریس کے مطابق، دو تین روز پہلے والا ماحول بارش نے خراب کردیا ہے۔ کیمپوں کے باہر لگے لنگر خانوں کی رونق بھی اسی لیے ماند پڑی ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد کارکنوں کی آمد غیر معمولی طور پر کم ہوئی ہے۔ لیکن شام کو کچھ رونق دکھائی دیتی ہے۔ کینال روڈ پر جہان جا بجا لنگر خانے تھے اور ہر وقت لنگر جاری رہتا تھا۔ وہاں صرف ایک تنور پر آگ جل رہی تھی اور تیرہ کارکن کیمپ میں موجود تھے۔ اس سے تیس گز کے فاصلے پر بھی ایک کیمپ میں پندرہ سے بیس کارکن موجود تھے اور باقی کیمپ خالی تھے۔ کچھ کیمپوں کو باقاعدہ قناتیں لگا کر بند کیا گیا تھا۔ ایک کیمپ کے باہر مشروبات فروخت کرنے والا ضلع دیر (صوبہ خیبر پختونخوا) کا اسلام خان پریشان تھا کہ سارے دن میں اس کے صرف تین گلاس شربت فروخت ہوئے اور آج اسے کم از کم پندرہ سوروپے کا نقصان ہوگا۔
عمران خاں کا ڈیرا ’’آباد‘‘ ہونے سے پہلے وہ لاری اڈے میں جوتے پالش کا کام کیا کرتا تھا اور وہاں اس نے صرف تین مہینے مزدوری کی تھی۔ زمان پارک کے اندر خیمہ بستی چند روز پہلے کی خیمہ بستی کے بجائے سیلاب متاثرین کی خیمہ بستی کا منظر پیش کر رہی تھی، جہاں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا۔ زمان پارک کی اس بستی میں صرف صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کچھ کارکن ہی موجود تھے۔ جو شفٹوں میں سیکورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا کارکن حافظ گل نے بتایا کہ، میں گزشتہ پندرہ روز سے یہاں پر ہوں اور ہم سب لوگ اس وقت تک یہاں رہیں گے، جب تک عمران خان خود واپس جانے کیلیے نہیں کہتے۔ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ شہر والوں کو کچھ اور نہیں تو کم از کم پانی کی نکاسی کا انتظام تو کرنا چاہیے تھا۔