چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو
چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکردی۔ فائل فوٹو

تحریک انصاف کی اسٹریٹ پاور دم توڑنے لگی

امت رپورٹ :
عمران خان نے چودہ مئی کو الیکشن نہ ہونے کی صورت میں سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی ہے اور فواد چوہدری لانگ مارچ کی نوید سنا رہے ہیں۔ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ سب گیدڑ بھبکیاں ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی قلابازیوں اور غیر دانشمندانہ فیصلوں نے نہ صرف پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کے دل مردہ کر دیئے ہیں۔ بلکہ ان کو حد درجہ تھکا بھی دیا ہے۔ خاص طور پر اب وہ سڑکوں پر مار کھانے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ کارکنوں کو بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکالنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی ناکامیوں کا سلسلہ پچھلے برس پچیس مئی سے چلا آرہا ہے۔

تازہ فلاپ شو یکم مئی کا تھا۔ اس روز پارٹی چیئرمین عمران خان کی کال پر لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں مزدوروں کے نام پر سیاسی ریلیاں نکالی گئیں۔ لاہور کی ریلی میں اگرچہ عمران خان خود شریک تھے۔ اس کے باوجود شرکا کی تعداد محض پانچ سے چھ ہزار تک تھی۔ اس کی گواہی خود پی ٹی آئی کے اپنے لوگوں نے بھی دی۔ لگ بھگ سوا کروڑ آبادی والے شہر میں یہ تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی بھی نہیں تھی۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملک کی سب سے مقبول سیاسی پارٹی کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اس سے دگنا کراؤڈ نصیبو لال اپنے شو میں جمع کر لیتی ہے۔

عوامی شو کے سلسلے میں سب سے بری حالت راولپنڈی میں رہی۔ جہاں بمشکل دو سے ڈھائی ہزار لوگوں کو جمع کیا جا سکا۔ ریلی سے پی ٹی آئی کے لوگوں کی بے زاری کا عالم یہ تھا کہ جب راولپنڈی میں لنگڑی لولی ریلی نکالی جارہی تھی تو ٹھیک اس دوران اسلام آباد میں پارٹی کے مرکزی دفتر ’’پی ٹی آئی سیکریٹریٹ‘‘ میں لوڈو کھیلی جارہی تھی۔

یہ دلچسپ انکشاف اس وقت ہوا جب راولپنڈی میں ریلی کی صورت حال معلوم کرنے کے لیے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے ذمے داران سے رابطہ کیا گیا تو وہاں موجود ’’امت‘‘ کی ایک سورس نے بتایا کہ بہت مایوس کن صورتحال ہے۔ راولپنڈی کی ریلی میں دو ڈھائی ہزار افراد اور لاہور میں خان کی موجودگی کے باوجود پانچ سے چھ ہزار لوگ جمع ہو سکے۔ سورس کا کہنا تھا کہ یہاں مرکزی دفتر میں بھی لوگ بے زار بیٹھے ہیں اور وقت گزاری کے لئے اس وقت لوڈو کھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ریلیوں میں شریک لوگوں کی انتہائی کم تعداد پر تبصرے جاری کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ راولپنڈی ریلی کی قیادت شاہ محمود قریشی اور اسلام آباد ریجن پی ٹی آئی کے صدر علی نواز اعوان نے کرنی تھی۔ لیکن لگتا ہے کہ شاید وہ بھی آئے روز کی ریلیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ دونوں پی ٹی آئی رہنما انتہائی تاخیر سے ریلی کے مقام پر پہنچے۔ تب تک ریلی کے شرکا کی کچھ تعداد مایوس ہو کر واپس جا چکی تھی۔

ذرائع کے مطابق ناکام ریلیوں پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے خاصی برہمی کا اظہار کیا۔ راولپنڈی ریلی کے حوالے سے انہیں یہ باور کرایا گیا کہ انتظامیہ نے چونکہ کنٹینر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے متعدد راستے بند کر دیئے تھے۔ اس لئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ریلی میں شریک نہ ہو سکی۔ حالانکہ یہ جواز محض ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے تھا۔ ریلی میں شرکا کی کم تعداد کی ایک وجہ تو کارکنوں کی بیزاری تھی اور دوسرا سبب انتظامیہ کی جانب سے غیر متوقع کریک ڈاؤن کا خوف تھا۔ حالانکہ اسلام آباد پولیس نے صرف وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے روکنے کا انتباہ جاری کیا تھا۔

ایک روز پہلے ہی اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی تھی اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں کسی بھی جلسے جلوس اور اجتماع کی اجازت نہیں اور یہ کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ریلی والے روز فیض آباد اور دیگر راستوں سے اسلام آباد میں داخل ہونے والے شہریوں کو چیکنگ کے بعد داخل ہونے دیا جارہا تھا۔ اسلام آباد پولیس کا انتباہ ان معنوں میں انتہائی موثر ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی ریلی کے شرکا نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کی جرات نہیں کی۔

پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار کے بقول جڑواں شہروں میں پی ٹی آئی کے ورکرز کو پہلے ہی تلخ تجربہ ہو چکا ہے جب جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی پیشی کے موقع پر پولیس کریک ڈاؤن کے دوران درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر اب بھی مقدمات بھگت رہے ہیں۔ عہدیدار کے بقول اب کوئی بھی مار کھانے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ چیئرمین عمران خان کی بے سمت پالیسیاں ہیں۔ جس کے تحت احتجاجی تحریک اور اجتماع مسلسل ناکامی سے دو چار اور غیر موثر ثابت ہو رہے ہیں۔

راولپنڈی میں ناکام ترین ریلی کے بعد کارکنوں کی بیزاری اور خوف کا اثر زائل کرنے کی خاطر اسد عمر کو بھیجا گیا۔ جنہوں نے ’’قربانی‘‘ دینے والے کارکنوں سے ملاقات کی اور ان کے ’’جذبے‘‘ کو سراہا۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ کوشش موثر ثابت نہیں ہوگی کہ کارکنوں کے دل میں پارٹی قیادت سے بیزاری کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت اپنی کھال بچا کر کارکنوں کو ایندھن بنا رہی ہے۔

پشاور میں ریلی کی صورت حال راولپنڈی سے بھی زیادہ بدتر رہی، اور محض چند سو افراد ہی اکٹھے ہو پائے۔ اس کا ایک سبب یکم مئی کو پشاور میں ہونے والی بارش ہو سکتی ہے۔ لیکن اصل وجہ مرکزی قائدین کی عدم دلچسپی تھی۔ یہاں ریلی کی قیادت پرویز خٹک، اسد قیصر کو سونپی گئی تھی۔ دونوں رہنما تاخیر سے پہنچے اور بارش میں بھیگتے ریلی کے چند سو کارکنان ان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ دونوں رہنما پہنچے بھی تو ریلی سے انتہائی مختصر خطاب کے بعد چلتے بنے۔ یوں پشاور کے گلبہار چوک سے شروع ہونے والی تحریک انصاف کی ریلی ناکامیوں کا ایک اور داغ لئے چوک یادگار پر اختتام پذیر ہو گئی۔

دلچسپ امر ہے کہ عمران خان نے یکم مئی کو کراچی میں ریلی کی کال نہیں دی۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کی گرفتاری کا اثر تاحال صوبائی پارٹی قیادت پر باقی ہے۔ اور وہ ذہنی طور پر کسی ایسی سرگرمی کے لئے تیار نہیں کہ جس میں پولیس کارروائی کا خدشہ ہو۔ لہٰذا ممکنہ طور پر ریلی کے حوالے سے کراچی کی پارٹی قیادت نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہوں۔

عوامی طاقت کے مظاہرے میں ناکامیوں کا سلسلہ گزشتہ برس پچیس مئی کو شروع ہوا تھا جب فلاپ لانگ مارچ پر عمران خان چھ دن میں واپس آنے کا اعلان کرکے چمپت ہو گئے تھے اور مہینوں غائب رہنے کے بعد نومبر میں انہوں نے دوبارہ قسطوں میں لانگ مارچ کی کوشش کی۔ کچھوے کی رفتار سے اسلام آباد کی طرف بڑھتا ڈیڑھ دو ہزار افراد کا قافلہ وزیر آباد پہنچا تو فائرنگ کے واقعہ میں زخمی ہو کر عمران خان اسپتال پہنچ گئے اور ناکامی سے دو چار لانگ مارچ آخر کار اختتام پذیر ہوگیا۔

بعدازاں مینار پاکستان پر ماضی جیسے جلسے کی کوشش بھی رسوائی دے گئی۔ قصہ مختصر اپریل دو ہزار بائیس کو اپنی معزولی کے بعد سے پچھلے ایک برس کے دوران عمران خان کوئی قابل ذکر عوامی شو کرنے یا مؤثر اجتجاجی تحریک چلانے میں مسلسل ناکام ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب امپائروں کا نیوٹرل ہونا اور دوسری وجہ پارٹی کارکنوں کی بڑھتی عدم دلچسپی ہے۔