سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا، سعد رفیق کا سپریم کورٹ میں مکالمہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ایک ساتھ انتخابات کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا خوش آمدید خواجہ سعد رفیق صاحب۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابات ایک دن کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے روسٹرم میں آکر کہا کہ وکیل نہیں ہوں اس لئے عدالت میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے،جو کہوں گا سچ کہوں گا ، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا،لیگی رہنما نے کہاکہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد بہت گہرا ہے،2017 سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی،میں بھی ایک شکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں،کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا،عوام کو صاف پانی نہیں دے سکتے، اداروں میں تصادم کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں۔

واجہ سعد رفیق نے کہاکہ مذاکرات کے دوران بہت کچھ سننا پڑا،مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے،آئین 90 دن کے ساتھ شفافیت کا بھی تقاضا کرتا ہے،پنجاب پر الزام لگتا ہے یہی حکومت کا فیصلہ کرتا ہے،الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے،آئین کے تقاضوں کو ملا کر ایک ہی دن الیکشن ہوں،صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا۔

سعد رفیق نے کہاکہ سیلاب اور محترمہ بینظیر کی شہادت پر انتخابات میں تاخیر ہوئی، حکومت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے،کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیرالتواہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلیے مقرر ہورہی ہے،اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کر دیاگیاہے،سعد رفیق نے کہا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں ، مذاکرات میں طے ہوا ہے یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے۔

سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں،دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کیلیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے،پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکرگزار ہوں ، مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیا ع نہیں ہے،مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں ، یہ میری تجویز ہے،عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں،اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی،ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہیے،مستقل کوئی بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہئے آپ ہوں یا ہم، نہ پہلے والا مارش لا ہے نہ گزشتہ دور کا نقاب پوش مارشل لا، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں،بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں،ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں،آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے،پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی،عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سیکیورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا،کم از کم فنڈز تو جاری ہو سکتے تھے۔