اختلافات کا آغاز 2018 میں ہوگیا تھا، فائل فوٹو
 اختلافات کا آغاز 2018 میں ہوگیا تھا، فائل فوٹو

پرویز خٹک نیا گھونسلہ تلاش کرنے لگے

امت رپورٹ:

سابق وزیر دفاع اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما پرویز خٹک نیا گھونسلہ تلاش کر رہے ہیں۔ اگر وہ پارٹی چھوڑ جاتے ہیں تو یہ تحریک انصاف کے لئے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک بڑا جھٹکا ہوگا، خاص طور پر ضلع نوشہرہ پارٹی کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں پرویز خٹک سمیت ان کے خاندان کے سات افراد رکن پارلیمان بنے تھے۔

پرویز خٹک کے انتہائی قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگرچہ سابق وزیر دفاع کو عمران خان کی حالیہ تباہ کن پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور کچھ ماضی کی ناراضگیاں بھی ہیں لیکن پارٹی چھوڑنے کے حوالے سے ان پر تازہ دبائو بی آر ٹی کیس کے حوالے سے ہے، جسے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پشاور کے اس میگا پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا الزام ہے جس میں مبینہ طور پر پرویز خٹک کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

قریبی ذرائع کے بقول پچھلے دوتین ماہ سے پرویز خٹک خاصے پریشان ہیں کیونکہ انہیں باور کرایا گیا ہے کہ بی آر ٹی کیس میں ان کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ فائلیں تیار ہیں، اور یہ کہ ان کی بچت اسی میں ہے کہ وہ تحریک انصاف سے فاصلہ اختیار کرلیں۔ صوبے اور مرکز میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں بی آر ٹی میں کرپشن کی تحقیقات دبائی جاتی رہیں۔ حتیٰ کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی نیب کو تحقیقات سے روک دیا تھا لیکن اب یہ کیس دوبارہ کھولا جارہا ہے اور یہی پرویز خٹک کی اصل پریشانی کا سبب ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ کی حکومت اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر دوہزار سترہ میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کا آغاز کیا تھا۔ بعد ازاں اس پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر گھپلوں کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ جس پر مرحوم جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پشاور ہائیکورٹ کے بنچ نے نیب کو بی آر ٹی پروجیکٹ میں ہونے والی کرپشن اور بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا تاہم صوبائی حکومت اس کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی تھی، جس پر اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے ہائی کورٹ کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا۔ یوں نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی تھیں۔ تاہم اب خیبرپختونخوا کی نگراں کابینہ نے بی آرٹی میں مبینہ کرپشن کا کیس ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سابق وزیر دفاع کے قریبی ذرائع کے بقول دیکھنا ہے کہ پرویز خٹک دبائو کا کس حد تک سامنا کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعصاب جواب دے گئے تو پھر وہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیں گے اور اگر مزاحمت جاری رکھی تو آنے والے دنوں میں بی آر ٹی اسکینڈل کی تحقیقات میں تیزی دیکھنے کو ملے گی اور اس سلسلے میں پرویز خٹک کی گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔ ذرائع کے بقول ابھی یہ طے نہیں کہ اگر پرویز خٹک پی ٹی آئی چھوڑدیتے ہیں تو کون سی نئی پارٹی جوائن کریں گے۔

پرویز خٹک نے پیپلز پارٹی کی کشتی سے چھلانگ لگاکر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام سے بھی ان کے قریب تعلقات ہیں۔ پی ٹی آئی چھوڑنے کی صورت ممکنہ طور پر پرویز خٹک کا انتخاب ان دونوں پارٹیوں میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔ گزشتہ برس ان کے بھائی ابراہیم خٹک جے یو آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ قریبی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ فی الحال پرویز خٹک دبائو کسی نہ کسی طرح دبائو کا سامنا کر رہے ہیں، ساتھ ہی نئے گھونسلے کی تلاش بھی جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کے نزدیک آکر وہ اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرلیں۔ تب تک تحریک انصاف کے اقتدار کی پٹری پر چڑھنے یا نہ چڑھنے کا اندازہ بھی ہوجائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ویسے بھی اب پرویز خٹک پارٹی چیئرمین عمران خان کی گڈ بک میں نہیں رہے ہیں۔ عمران خان کے خیال میں پرویز خٹک ’’دونوں طرف‘‘ کھیل رہے ہیں۔ اس لئے وہ ان پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے، پھر یہ کہ حال ہی میں آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کے الزامات نے عمران خان کو پرویز خٹک سے مزید بدگمان کردیا ہے۔ سردار تنویر الیاس نے دعویٰ کیا تھا کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے میں پرویز خٹک نے بنیادی رول ادا کیا۔ تنویر الیاس کے بقول یہ پہلی بار ہوا کہ آزاد کشمیر میں حکومت گرائی گئی اور یہ سب پرویز خٹک کی مداخلت کی وجہ سے ہوا۔

پرویز خٹک کا صوبہ خیبرپخونخوا کی سیاست میں خاصا اثرورسوخ ہے۔ خاص طور پر ان کے آبائی ضلع نوشہرہ میں ان ہی کے خاندان کا طوطی بولتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان سمیت خاندان کے چھ افراد ارکان پارلیمنٹ تھے۔ جولائی دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پرویز خٹک ضلع نوشہرہ میں بیک وقت تین سیٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان میں سے قومی اسمبلی کی نشست انہوں نے اپنے پاس رکھی اور صوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں خالی کردی تھیں۔

بعد ازاں پارٹی میں اپنے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے خالی کردہ صوبائی سیٹوں پر اپنے بیٹے ابراہیم خٹک اور بھائی لیاقت خٹک کو ٹکٹ دلادیا تھا۔ ضمنی الیکشن میں ان دونوں سیٹوں سے ابراہیم خٹک اور لیاقت خٹک کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں لیاقت خٹک صوبائی کابینہ کا بھی حصہ بنے۔ تاہم نوشہرہ کی ایک صوبائی نشست پر گزشتہ برس ہونے والے ضمنی الیکشن میں نون لیگ کے امیدوار کی کامیابی میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر لیاقت خٹک کو صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ گزشتہ الیکشن میں نوشہرہ ون سے نوشہرہ کی نشست این اے پچیس سے پرویز خٹک منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ این اے چھبیس سے ان کے داماد ڈاکٹر عمران خٹک جیت گئے تھے۔ اسی طرح پرویز خٹک کی سالی اور ایک بھتیجی بھی ارکان قومی اسمبلی رہیں

(واضح رہے کہ فی الحال پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی نشستوں سے اجتماعی استعفے دے رکھے ہیں) جبکہ ان کے بھتیجے احد خٹک نوشہرہ کے تحصیل ناظم بنے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا، خاص طور پر ضلع نوشہرہ میں پرویز خٹک کے خاندان کی سیاسی گرفت کس قدر مضبوط ہے۔ اگر وہ پارٹی چھوڑتے ہیں تو یہ صوبے میں پی ٹی آئی کے لیے بڑا سیاسی نقصان ہوگا۔