اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر قانون سے ہٹ کر کچھ بھی ہوا تو بھگتنا پڑے گا ۔عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکیوٹر جنرل کو آدھے گھنٹے میں طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو کرپشن کیس میں نیب نے گرفتار کیاہے ، چیف جسٹس عامر فاروق نے سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 15 منٹ کا کہا تھا اب تو 45 منٹ ہو گئے ہیں، اب کیا میں کابینہ کو بلاﺅں ؟ ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کرتے وقت نیب تو نہیں تھی ،اگر قانون کے مطابق نہیں ہوا تو مناسب آرڈر پاس کریں گے ،اگر قانون سے ہٹ کر کچھ بھی ہوا تو بھگتنا پڑے گا ،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج جو کچھ ہوا وکالت ختم ہو گئی ہے ،چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل سکریٹری داخلہ راستے میں ہیں آ رہے ہیں، اسلا م آباد کتنا بڑا ہے ؟ 15منٹ لگتے ہیں ۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ عمران خان کی گرفتایر کے وارنٹ تھے ، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست آئی تھی ،آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہاں سے گرفتار ہواہے ۔خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیاہے ۔بیرسٹر گوہر نے عدالت میں کہا کہ راڈ عمران خان کے سر پر مارا، یہ میں بیان حلفی دینے کیلئے تیار ہوں ۔
عمران خان کے ساتھ گرفتاری کے وقت موجود زخمی وکیل علی بخاری اور نعیم حیدر عدالت میں پیش ہوگئے ،خواجہ حارث نے کہا کہ احاطہ عدالت میں گرفتار نہیں ہو سکتی ،وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملازمین و کلاءکو مارا گیا ، شیشے توڑے گئے ،خواجہ حارث نے کہا کہ اس سارے معاملے کو ریورس ہونا ضروری ہے ، قانون یہ کہتاہے کہ انکوائری کے دوران یہ گرفتار نہیں کر سکتے ہیں ،وکیل نے کہا کہ القادر یونیورسٹی کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت آج دائر ہوئی ہے ،عمران خان بائیومیٹرک کرانے آئے تھے ، ان کو اسی وقت ریورس کرنا ضروری ہے ۔
زخمی وکیل علی بخاری نے بتایا کہ میں ڈائری برانچ میں عمران خان کے ساتھ موجود تھا ،پولیس کا اور بائیو میٹر کا سٹاف موجود تھا، پانچ پولیس والے بائیومیٹرک کے اندرموجود تھے ،شیشے توڑ کر وہ اندر آئے کمپیوٹر والے شیشے توڑے۔ایڈیشنل سکریٹی داخلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں پتا کہ نیب اس طریقے سے بھی گرفتار کر سکتی ہے ،کورٹ سٹاف ، وکلا، پولیس ، عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ کیاہے ، کیا یہ گرفتاری قانونی ہے ؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے وکلاءکے ساتھ جوہوا وہ درست نہیں ہے ،باقی وارنٹس پر عمل ہواہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاپر حملہ میرے اوپر حملہ ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کو گرفتارکرلیا گیاہے ،یہ اتنا سادہ نہیں ہے ، اس لیے مجھے دیکھنا ہے ،، چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو مطمئن کرناہے ،عدالت کے احاطہ سے یہ گرفتاری ہوئی ہے ،خواجہ حارث نے کہا کہ تینوں ضمانت کی درخواستیں اس سے متعلق ہیں ،نیب اور فیڈریشن کا ایک ہی اسٹینڈ ہے ۔
یف جسٹس نے ہدایت کی کہ جہانزیب بھروانہ کو بلائیں ،عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ وردی میں تھے ؟وکیل نعیم حیدر نے کہا کہ جی بالکل وردی میں تھے ، ویڈیوز موجود ہیں ،میر گزارش ہے کہ آپ کے پاس اختیار ہے آپ عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیں ،رجسٹرار اس کیس کا کمپلیننٹ ہے ،ہمارے پاس ویڈیوز ہیں، یہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش تھی ،خواجہ حارث نے کہا کہ 45 سال میں اس پیشہ کے دوران کبھی نہیں دیکھا احاطہ عدالت سے گرفتاری ہو جائے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار روم اور پارکنگ کو کیا کورٹ روم سمجھا جائے گا ؟۔
عدالت میں موجود تمام وکلانے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کہنے پر شیم شیم کہنا شروع کر دیا ،عدالت کی تمام وکلا کو خاموش رہنے کی ہدایت ،وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ اگر میں بھی وہاں ہوتا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوتا ۔ عمران خان کے وکلانے فوری عمران خان کی گرفتاری کو ختم کرنے کی استدعا کر دی ۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلا م آباد نے کہا کہ وکلاءکے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ درست نہیں ہوا،آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم ضمانت کیلیے آئے تھے ،میرے کون سے پولیس والے زخمی ہوئے مجھے پتا تو کرنے دیں، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ رینجرز ہائیکورٹ میں اسٹینڈنگ رکھی ہوئی تھی۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ رینجرز پولیس کا اختیار کر سکتے ہیں ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے سامنے میرے ساتھ بھائی کھڑے ہیں ان کا کیا ہوگا ،بلڈنگ ٹھیک ہو جائے گی لیکن وقار برقرار ہنا ضروری ہوتاہے ،اگر سسٹم بریک ڈاﺅن کر جائے گا توہم کہاں کھڑے ہوں گے ،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رپورٹ پولیس کو بنانے دیں کل تک دے دیں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہر شہری کا حق ہے ، عدلیہ کی آزادی پر حرف آیاہے ،ہائیکورٹ کے آفس کے اندر گھس کر گرفتار کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ،فیئر ٹرائل نہیں ہے ، ایک شخص پٹیشن لے کر بیٹھاہے اس کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں ،وہاں پر اتنا کچھ پڑا ہواہے یہ کہتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں ،آئین کی کون سی شق یہ اجازت دیتی ہے ،ہماری پٹیشن یہی ہے کہ ہمیں نوٹس نہیں دیا تو گرفتار کر لیں گے ،
یاد رہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے عدالت کے حاطے میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور ہنگامیہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی ، سیکریٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 15 منٹ میں طلب کیا اور کہا کہ ہدایت لے کر فوری بتائیں کہ یہ کارروائی کس کے کہنے پر کی گئی ہے اور یہ بھی بتائیں کہ کس کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا گیاہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر کارروائی کرنا پڑی تو وزیراعظم اور وزراء کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔عدالت سے پیشی کیلیے 15 منٹ سے وقت بڑھا کر 30 منٹ کرنے کا کہا گیا لیکن عدالت نے درخواست مسترد کر دی اور چیف جسٹس اٹھ کر چیمبر میں چلے گئے ۔