امت رپورٹ:
عدالتوں سے ملنے والے ناقابل یقین ریلیف کے بعد عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر زہریلے ویڈیو خطاب نے پارٹی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو چیئرمین سے متنفر کر دیا ہے۔ ان کارکنوں کے بقول ایک ایسے وقت میں جب پولیس کا کریک ڈائون جاری ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے ہیں۔ عمران خان کے نئے خطاب نے ان کے لئے زندگی مزید تنگ کر دی ہے۔ پارٹی چیئرمین نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ وہ خود تو زمان پارک کے قلعے میں بیٹھے ہیں۔ لیکن ان کے غیر دانش مندانہ خطابات سے کارکنوں پر کیا گزرے گی جو پہلے ہی عذاب میں ہیں۔
واضح رہے کہ مختلف مقدمات میں ضمانت پر رہائی کے بعد ہفتے کو اپنے پہلے ویڈیو خطاب میں عمران خان نے ایک بار پھر قومی سلامتی کے اداروں اور ان سے وابستہ اہم افسروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ انہوں نے اہم افسروں کے خلاف نہ صرف اپنے پرانے الزامات دہرائے۔ بلکہ اس بار اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ بھی ادا کئے۔ ان کے اس خطاب پر خود ان کے پارٹی ورکرز میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں واقع تحریک انصاف کے مرکزی دفتر ’’پی ٹی آئی سیکریٹریٹ‘‘ کے ایک سے زائد عہدیداران نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کا کل سے دفتر میں تانتا بندھا ہوا ہے۔ جو عمران خان کے تازہ ویڈیو بیان پر سخت برہم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے ان کو نئے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ دفتر کے عہدیداران کے بقول کارکنان کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عمران خان نے خود اپنے لئے تو مہنگے ترین وکلا کی پوری فوج رکھی ہوئی ہے۔ لیکن پارٹی کے سینکڑوں گرفتار کارکنان کی ضمانت کرانے والا کوئی نہیں۔ ان کے والدین اور اہل خانہ دربدر پھر رہے ہیں۔ پارٹی کی نصف مرکزی قیادت گرفتار ہے اور باقی روپوش ہے۔ ایسے میں کارکنان کہاں جائیں؟ کارکنان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کڑے اور مشکل وقت میں جب عمران خان کو اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کے لئے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔ وہ دوبارہ اشتعال انگیز بیانات دے کر ان کے لئے مزید مصیبتیں کھڑی کر رہے ہیں۔ پارٹی عہدیداران نے انکشاف کیا کہ عمران خان سمیت کسی پارٹی لیڈر کے پاس یہ ڈیٹا موجود نہیں کہ اب تک ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کتنے کارکنان گرفتار ہو چکے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ گرفتار کارکنان کی فہرست بناکر ان کی ضمانتوں کے لئے متعلقہ عدالتوں سے رجوع کریں اور اس کے لئے وکلا کی ایک الگ ٹیم تشکیل دی جائے۔ پارٹی چیئرمین الٹا اشتعال انگیز بیانات دے کر کارکنان کو دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کی کال دے رہے ہیں۔ اب کوئی ان کے لئے پہلے کی طرح باہر نہیں نکلے گا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے اتوار کے روز بھی کارکنان کو اپنے متعلقہ اضلاع اور محلوں میں احتجاج کے لئے باہر نکلنے کی کال دی تھی۔ تاہم یہ شو بری طرح فلاپ رہا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر کے عہدیداران کے بقول کارکنوں کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ عدالت میں اور رہائی کے بعد زمان پارک آکر اپنے ویڈیو خطاب میں بھی عمران خان نے گرفتار ورکرز کے لئے ایک لفظ نہیں بولا اور نہ ان کے اہل خانہ کو یہ ڈھارس دی کہ گرفتار شدگان کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا۔ الٹا یہ کہہ کر کہ جلائو گھیرائو کرنے والے پی ٹی آئی کے لوگ نہیں تھے، اپنے ورکرز سے ایک طرح سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقی آزادی کا دیا گیا گمراہ کن نعرہ خود عمران خان نے دیا تھا۔ جس سے متاثر ہوکر خاص طور پر نوجوان پارٹی کارکنان نے ان کی گرفتاری پر شدید ردعمل دیا۔
پارٹی عہدیداران نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عدالتوں سے عمران خان کو بے مثال ضمانتیں ملنے کے بعد پارٹی کے کارکنوں کو لالی پاپ دینے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا تھا کہ اوپر سیٹنگ ہوگئی ہے۔ جس پر کارکنوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چھاپوں اور گرفتاریوں کی شکل میں انہیں جن کڑے حالات کا سامنا ہے، یہ صورتحال اب ختم ہونے والی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان نے ایک اور خوفناک تقریر کر ڈالی اور جو ورکرز سکھ کا سانس لینے کی امید لگائے بیٹھے تھے، ان کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر یہ سوالات بھی تواتر سے اٹھائے جا رہے ہیں کہ عمران خان کے اپنے دونوں بیٹے تو برطانیہ میں لگژری زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ وہ قوم کے نوجوانوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ایندھن بنارہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے اوورسیز سپورٹرز سوشل میڈیا پر ملک اور قومی اداروں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور بیرون ملک ہونے کی وجہ سے خود تو محفوظ ہیں۔ لیکن ان کی اشتعال انگیزی کا خمیازہ پاکستان میں پی ٹی آئی کا نوجوان ورکر بھگت رہا ہے۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ قومی اور فوجی تنصیبات پر حملوں سمیت جلائو گھیرائو میں ملوث بلوائیوں کے خلاف ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ جن لوگوں کو ٹھوس شواہد کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔ انہیں کسی صورت معافی نہیں ملے گی۔ یوں عمران خان کے پرفریب نعروں کے زیر اثر آکر جلائو گھیرائو کی سنگین کارروائیاں کرنے والوں کا مستقبل بظاہر تاریک دکھائی دے رہا ہے۔