گرفتاری سے بچنے کیلئے شاطرانہ طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو
 گرفتاری سے بچنے کیلئے شاطرانہ طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو

تحریک انصاف کراچی کی قیادت روپوش، پولیس گرفتار نہ کر سکی

کاشف ہاشمی :
9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ کراچی میں بھی پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے کارکنان اور ہمدروں کو اکسایا گیا۔ جس کے بعد شارع فیصل پر پی ٹی آئی کے شر پسندوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اربوں مالیت کی املاک کو نقصان پہنچایا۔

شارع فیصل پر شرپسندوں کو لیڈ کرنے والے پی ٹی آئی کے رہنما راجہ اظہر اور حلیم عادل شیخ تھے۔ جبکہ شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیرخان، فہیم خان، فردوس شمیم نقوی، ارسلان گھمن اور عدیل احمد بھی کارکنان کو اشتعال دلا رہے تھے۔ شرپسندوں نے ہنگامہ آرائی کے دوران سرکای و عوامی املاک کو آگ لگانے کیلیے ایک خاص کیمیکل استعمال کیا۔ جو ماضی میں ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن فائر بریگیڈ کا عملہ چھ روز گزر جانے کے باوجود اپنی رپورٹ مرتب نہیں کرسکا۔ جس کی وجہ سے پولیس کے تفتیشی اداروں کو شدید پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

سائوتھ اور ایسٹ زون کے دو پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ شر پسندوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات سمیت عوامی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ پُرتشدد احتجاج کا سلسلہ 9 مئی کی شام ویسے تو کئی علاقوں میں شروع ہوا۔ مگر پولیس اور رینجرز کے فوری اور موثر ایکشن کے باعث سہراب گوٹھ، ماڑی پور روڈ، فائیو اسٹار چورنگی، حسن اسکوائر اور نیشنل ہائی وے ملیر سمیت دیگر مقامات پر مظاہرین کو فوری ہی منتشر کر دیا گیا تھا۔ ان علاقوں سمیت دیگر مقامات پر تو صورتحال بہتر رہی۔ لیکن شہر کی مرکزی شاہراہ شارع فیصل پی ٹی آئی کے کارکنان کے احتجاج کے باعث میدان جنگ میں تبدیل ہوکر رہ گئی۔ احتجاج کی آڑ میں شر پسندوں نے ہنگامہ آرائی شروع کی۔ جلائو گھیرائو اور گاڑیوں پر پتھرائو کیا۔ پولیس نے روکنا چاہا تو ان سے بھی مڈبھیڑ کی۔

شر پسندوں نے راجہ اظہر کے احکامات پر سرکاری اور نجی املاک کو بھی نشانے پر لیا۔ مشتعل افراد نے شہر کی مرکزی شاہراہ پر نصب کمانڈ اینڈ کنٹرول کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ گرین بیلٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اسی پر بس نہ ہوئی تو بلوائیوں کی گرفتاری کی غرض سے لائی گئی قیدیوں کی وین کو بھی نذر آتش کر دیا۔ شرپسندوں نے سڑک سے گزرنے والی متعدد گاڑیوں، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی دو سیکشن اینڈ جیٹنگ وہیکلز کے ساتھ ساتھ بلوچ کالونی فلائی اوور کے نیچے قائم ٹریفک سیکشن اور پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی پر واقع قانون نافذ کرنے والے ادارے کی چوکی کو بھی نذر آتش کردیا تھا۔

مظاہرین نے ٹریفک پولیس چوکی اور اطراف میں کھڑی شہریوں کی کئی موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگائی۔ اس دوران حال ہی میں کراچی والوں کو میسر آنے والی پیپلز بس سروس کی جدید بسیں بھی شر پسندوں سے محفوظ نہ رہیں۔ مشتعل افراد نے شارع فیصل پر ہی بھاری مالیت کی دو جدید بسوں پر پتھرائو کرکے انہیں نقصان پہنچایا اور ایک بس کو آگ لگا دی۔ اسی روز ناگن چورنگی اور شاہ فیصل کالونی میں بھی دو پیپلز بسوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ 9 مئی کی شام شارع فیصل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی، پولیس اور شر پسندوں کے درمیان جھڑپیں رات گئے تک جاری رہیں۔ جبکہ دوسرے روز کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ پر تشدد احتجاج کے باعث علاقہ دن بھر میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ دن بھر جاری رہی۔

اسی روز سفاری پارک کے قریب نامعلوم شر پسندوں نے ڈی ایس پی لیگل کے عہدے پر تعینات افسر کی پولیس موبائل کو آگ لگادی۔ شہر قائد میں دو روز تک جاری ہنگامہ آرائی اور جھڑپوں کے باعث پولیس نے 29 سے زائد مقدمات درج کئے۔ جس کے بعد تحریک انصاف سے وابستہ رہنمائوں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو اب تک جاری ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اب تک شہر بھر سے 400 سے زائد افراد کو ہنگامہ آرائی اور جلائو گھیرائو کے الزا م میں حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جس میں سے 300 سے زائد افراد کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔ گرفتار کیے جانے والوں میں پی ٹی آئی کے تین رہنما علی زیدی، ایم پی اے عدیل احمد اور فروس شمیم نقوی بھی شامل ہیں۔ پولیس نے اتوار کے روز پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی کو گلستان جوہر پہلوان گوٹھ سے گرفتار کرکے تھانے منتقل کر دیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ فردوس شمیم نقوی مختلف علاقوں سے ریلی نکال رہے تھے۔ اس وقت انہیں اور چند کارکنا ن کو پولیس نے گرفتارکرلیا۔

پولیس کے مطابق فردوس شمیم نقوی کے خلاف مختلف تھانوں میں حالیہ احتجاج کے بعد کئی مقدمات درج ہیں۔ جبکہ دیگر گرفتار ہونے والوں میں زیادہ تر وہ کارکنان شامل ہیں۔ جو الیکشن میں کسی نہ کسی عہدے کے امیدوار تھے۔ ان کے گھروں پر پولیس کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس نے شارع فیصل پر رینجرز کی چوکی کو آگ لگانے والے شخص عبدالحمید کو بھی گرفتارکرلیا ہے۔ پی ٹی آئی کا مقامی عہدیدار عبدالحمید چوکی نذر آتش کرنے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کو بھی للکارتا رہا۔ ملزم عبدالحمید نے اپنے ویڈیو بیان میں پاک فوج اور پولیس سے معافی مانگی ہے اور اقرار کیا ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کے قیادت کے حکم پر رینجرز کی چوکی کو آگ لگائی اور اس کے بیٹے مصطفی نے اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔

معلوم ہوا ہے کہ شارع فیصل پر ہنگامہ آرائی کرانے والے پی ٹی آئی کے لیڈر راجہ اظہر کوپولیس کی جانب سے کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ حلیم عادل شیخ نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا رکھی ہے۔ تاہم پولیس شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیرخان، فہیم خان اور ارسلان گھمن کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اور متعلقہ ادارے مذکورہ پی ٹی آئی رہنمائوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہے۔ پولیس نے لوکیٹر کے ذریعے بھی چھاپے مارے۔ لیکن کامیابی مل نہ سکی۔ پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے شاطر طریقہ استعمال کرتے ہوئے اپنے موبائل فونز اپنے گھر پر ہی چھوڑ دیئے ہیں۔ جب پولیس نے ان کے موبائل فون کی لوکیشن حاصل کرکے چھاپے مارے تو وہ موجود نہیں تھے۔ انہوں نے نو مئی کے بعد سے اپنے موبائل فون کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے اور نئے نمبر حاصل کرکے اپنے عہدیداران اور کارکنان سے رابطے کر رہے ہیں۔

’’امت‘‘ نے پی ٹی آئی کی ترجمان فلک الماس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے ہمارے کارکنان کے گھروں اور ٹھکانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جن افراد نے ضمانتیں کروالی ہیں۔ انہیں دوبارہ گرفتارکر کے ایم پی او کے تحت نظر بندکردیا گیا ہے۔ پولیس ڈسٹرکٹ ایسٹ نے تین مقدمات دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے ہیں۔ ان مقدمات میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سمیت کئی اراکین اسمبلی کو نامزد ملزم ظاہر کیا گیا ہے۔ ضلع کورنگی کے شاہ فیصل پولیس اسٹیشن میں 4 اراکین اسمبلی کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوئے۔ ضلع ملیر میں شاہ لطیف اور قائد آباد پولیس نے دو مقدمات درج کیے۔ ویسٹ پولیس نے پیر آباد، مومن آباد اور سرجانی ٹائون میں تین مقدمات درج کیے۔

تینوں مقدمات ہنگامہ آرائی اور جلائو گھیرائو کے الزامات کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایت دی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلی قیادت سمیت تمام کارکنان کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں جلد سے جلد گرفتار کیا جائے۔ لیکن پولیس کی جانب سے چھاپے تو مارے جارہے ہیں۔ جس میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ لیکن تاحال اعلیٰ قیادت کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ فرار ہونے والے راجہ اظہر، شاہنواز جدون، سعید اعوان، آفتاب صدیقی، خرم شیر زمان، عالمگیر خان، فہیم خان اور ارسلان گھمن نے کراچی سے روپوش ہوکر کسی اور شہر میں روپوشی اختیار کرلی ہے۔ ان کی تلاش میں سندھ کے مختلف علاقو ں میں بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔