کراچی(امت نیوز) سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت ہونے والا رنگا رنگ “دوسرا ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی شوکیس 2023” کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقدہ یہ دو روزہ ایونٹ سندھ کی جامعات اور کاروباری اداروں اور صنعتوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے کیلئے منعقد کیا گیا تھا تاکہ سرکاری و نجی جامعات کے فیکلٹی ممبران، طلبہ اور ریسرچرز کی تیار کردہ اشیاء کی نمائش کی جا سکے اور موجدین کی حوصلہ افزائی کرکے ان کی مصنوعات مقامی سطح پر تیار کرکے درآمدات کی مد میں خرچ کیے جانے والے اربوں ڈالرز بچائے جا سکیں۔
ایونٹ میں 126؍اسٹالز پر پیش کی جانے والی 401؍ مختلف ایجادات اور پروڈکٹس ایونٹ میں شرکت کیلئے آنے والوں کی توجہ کا مرکز رہے جبکہ مختلف اسکولوں، کالجز اور دیگر جامعات سے آنے والے طلبہ کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ تقریب میں سرکردہ انڈسٹریز اور کاروباری اداروں کے نمائندوں، چیمبر آف کامرس کے حکام اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی اور اسٹالز کا دورہ کیا۔ تقریب میں طلبہ نے الیکٹرک کار، سولر سسٹم، روبوٹ سمیت کئی ایسے پروجیکٹس پیش کیے جنہیں پراجیکٹ پیش کئے۔
اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کے وزیر محمد اسماعیل راہو تھے جنہوں نے ہر اسٹال کا دورہ کیا اور طلبہ سے ان کے پروجیکٹ کے حوالے سے معلومات بھی حاصل کیں۔
سیکریٹری سندھ ایچ ای سی معین الدین صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ایونٹس میں بڑی تعداد میں طلبہ کی شرکت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ طلبہ میں کتنا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے جو اپنی محنت، لگن اور ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے یہاں اپنی پروڈکٹ لیکر آئے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر چیئرپرسن ڈاکٹر طارق رفیع کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی ذکر کیا جن کی وجہ سے ایسے پروگرامز حقیقت کا رنگ لیتے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ تمام تر معاشی چیلنجز کے باوجود سندھ حکومت نے یونیورسٹیز کی گرانٹ میں زبردست اضافہ کیا ہے اور اسے 14؍ ار ب روپے تک پہنچایا ہے، ریسرچ، جدت اور ایجاد کے معاملے میں طلبا کا یہاں آنا اور اپنی پروڈکٹ عوام کے سامنے اعتماد کے ساتھ رکھنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ طلبہ تحقیق و ایجاد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جامعات بھی ہمارا ساتھ دیں تاکہ وہاں پڑھنے والے بچے وہ پروڈکٹس تیار کر سکیں جو مارکیٹ کی ضروریات اور معیار کے عین مطابق ہو کیونکہ اتنا بڑا تعلیمی بجٹ ہونے کے باوجود اگر ہم اپنی مصنوعات خود مارکیٹ میں لانچ نہ کر سکیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔
مہمان خصوصی وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محمد اسمٰعیل راہو کا کہنا تھا کہ پروگرام میں اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کی شرکت سے مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے اور بچوں سے بات کرکے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے جس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی جستجو دیکھ مجھے بڑی خوشی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں موقع ملا تو یہ بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ میں نے کئی بچوں سے بات کی جس سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ کیا سوچتے ہیں، ان کا ویژن کیا ہے، انہیں ایکسپوژر ملنا چاہئے، یہ ضروری ہے، تعلیم کی بہتری کیلئے ہم نے پرائمری تعلیم کیلئے ٹیچرز بھرتی کیے ہیں اور یہ سب میرٹ پر لیے گئے ہیں اور آئی بی اے کے ذریعے ہم نے یہ اقدام کیا تاکہ شفافیت برقرار رہے، مقصد یہی تھا کہ بچوں کو تعلیم دینے والے لوگ بہتر انداز سے منتخب ہو کر آئیں۔
محمد اسمعیل راہوکا کہنا تھا کہ تعلیم کا فروغ ہی ہمارا مقصد ہے اور ایسی تعلیم جس میں طلبہ کا ویژن بہتر ہو، یہ اہم ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات ہے کہ ہم سوچ کر کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں یہاں طارق رفیع صاحب کا شکریہ ادا کروں گا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ریسرچ اور ایجادات کے شعبے کے حوالے سے بھی بصیرت انگیزی سے کام لے رہے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر شرکاء یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز میں اسناد اور مومینٹو تقسیم کیے گئے۔ تقریب کے اختتام پر ایونٹ میں شریک جامعات کے نمائندوں میں اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔