امت رپورٹ :
آڈیو لیکس کی انکوائری کے لئے قائم کئے جانے والے کمیشن کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ان آڈیوز سے متعلق الزامات پر پوچھ گچھ کے لئے باہم گفتگو کرنے والی شخصیات کو طلب کرسکے۔ اس سلسلے میں سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، چیف جسٹس پاکستان کی ساس، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے داماد علی افضل ساہی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری اور پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم سمیت چند دیگر شخصیات کو انکوائری کے لئے طلب کیا جاسکتا ہے۔ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں حکومت، عدلیہ سے وابستہ شخصیات کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیشن دوہزار سترہ کے سیکشن دس کے تحت کمیشن اپنے اختیار استعمال کرسکے گا۔ اس سیکشن کے تحت جہاں کمیشن کو انتظامی مشینری کی بھرپور معاونت حاصل ہوگی، وہیں وہ آڈیوز لیکس کے کرداروں کو طلب کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔
نوٹیفکیشن میں جن آڈیو لیکس کی تحقیقات کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں نام ظاہر نہیں کئے گئے ہیں تاہم عہدے بتائے گئے ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج سے متعلق کال کی تحقیقات کرے گا۔ یہ کال چوہدری پرویز الٰہی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے مابین تھی۔ جس میں سابق وزیراعلیٰ، وکیل موصوف کو ایک مخصوص جج کے پاس کیس لگوانے کا کہہ رہے ہیں اور بعد میں اسی کیس کو سننے والے سپریم کورٹ کے بنچ میں جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔ اس نوعیت کی ایک اور کال جسٹس مظاہر علی نقوی اور چوہدری پرویز الٰہی کے مابین ہونے والی گفتگو پر مشتمل ہے۔ ایک کال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے اور اس کے ایک دوست کے حوالے سے ہے جس میں تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا موضوع زیر بحث ہے۔ ایک کال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ ایک کال خواجہ طارق رحیم اور صحافی عبدالقیوم صدیقی کے مابین ہونے والی بات چیت کی ہے جس میں خواجہ طارق رحیم صحافی کو بتارہے ہیں کہ سپریم کورٹ کس طرح عمران خان کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوائے گا اور ہائیکورٹ سے عمران خان کو ریلیف مل جائے گا۔ بعد میں ایسا ہی ہوا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک دن میں مختلف کیسز میں تھوک کے حساب سے ضمانتیں مل گئی تھیں۔ اسی طرح ایک کال چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ساس اور پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کے مابین گفتگو کی ہے، جس میں چیف جسٹس پاکستان کی ساس ایک غیر آئینی خواہش کا اظہار کر رہی ہیں۔
حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری کمیشن، عدلیہ سمیت دیگر معاملات سے متعلق آڈیو لیکس کی سچائی کے بارے میں پوچھ گچھ کرکے ذمہ داران کا تعین کرکے اپنی سفارشات مرتب کرے گا اور دیکھے گا کہ عدلیہ سے جڑے کون سے افراد ملوث ہیں۔ اور یہ کہ کون سی حکومتی ایجنسی ذمہ داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔
کمیشن آف انکوائری ایکٹ دوہزار سترہ کی دفعہ تین کے تحت قائم کئے جانے والے تین رکنی کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق ارکان میں شامل ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری کمیشن تیس روز میں تحقیقات مکمل کرے گا تاہم اگر مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت فراہم کردے گی۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اگر آڈیو لیکس اصل ثابت ہوگئیں اور وہ الزامات بھی درست نکلے جو ان آڈیوز کے حوالے سے لگائے گئے ہیں تو پھر حکومت کیا کارروائی کرے گی؟ اس بارے میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر آڈیو لیکس اور الزامات درست ثابت ہوگئے تو عدلیہ سے متعلق شخصیات کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت ریفرنس دائر کرے گی جبکہ دیگر افراد کے خلاف دیگر قوانین کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کا عندیہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی دیا ہے۔ لیکن یہ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ جس سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے سربراہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہیں ، ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے اور اپنے ساتھی ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے والے کسی ریفرنس پر کارروائی شروع نہیں کرائیں گے۔ اس سے قبل جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی جانے والی متعدد شکایات کو بھی وہ گھاس نہیں ڈال رہے ہیں۔ اس پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر الزامات درست ثابت ہونے پر حکومت معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جاتی ہے اور حسب توقع چیف جسٹس پاکستان اس ریفرنس کو نظر انداز کردیتے ہیں تو چند ماہ بعد یہ رکاوٹ دور ہوجائے گی، جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال ریٹائر ہوجائیں گے۔ جس کے بعد اگلے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے اور یوں وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ بھی بن جائیں گے۔ رواں برس گیارہ اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس پاکستان نوٹیفکیشن جاری ہوگا اور تقریباً ایک ماہ بعد سولہ ستمبر کو وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھالیں گے۔ یہی وہ موقع ہوگا، جب حالیہ ممکنہ ریفرنس اور جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف پہلے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں پڑی شکایات کو سنا جائے گا۔ موجودہ چیف جسٹس ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں تو ریفرنس کے الزامات ثابت ہونے کے اثرات ان کی پنشن اور دیگر مراعات پر پڑسکتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو ان آڈیو لیکس کے درست ہونے کا سوفیصد یقین ہے اسی لیے اعتماد کے ساتھ انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔