کراچی ( رپورٹ : سید نبیل اختر) پاکستان سیکورٹی پرنٹنگ کارپوریشن (پی ایس پی سی)میں غیر معیاری نوٹ چھپائی کی از سر نو تحقیقات کے احکامات نظر انداز کردیئے گئے ، 20 روپے کے ایک کروڑ 80 لاکھ نوٹ زائد المیعاد روشنائی سے چھاپے گئے ، چھپائی پر 4 کروڑ سے زائد کی لاگت آئی ۔خزانے کو نقصان پہنچنے پر آڈیٹر جنرل نے معاملے کی تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے ۔ دوسری جانب مرکزی بینک حکام نے انٹرنل انکوائری میں ذمہ دار افسر کو بچانے کے بعد جنرل منیجر تعینات کرنے کی تیاری کرلی ۔ آڈیٹر جنرل نے اسٹیٹ بینک کے ذیلی ادار ے پاکستان سیکورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے ایک کمرشل آڈٹ پیرا نمبر 9.2.4.1 میں خزانے کو پہنچنے والے نقصان پر ذمہ داران کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے تاہم مرکزی بینک کی انتظامیہ اپنے ہی ذیلی ادارے میں ہونے والی غفلت پر انکوائری زدہ افسر کو ترقی دینے کی تیاری کرلی۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ کیس میں تین افسران میں سے دو کی تنزلی کے احکامات جاری کیئے گئے تھے اور سینئر منیجر محمد شاہد کو بچالیا گیا تھا ، مذکورہ کیس میں ذمہ دار ایک افسر نے تنزلی کی سزا سنتے ہی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ پی ایس پی سی ذرائع نے بتایا کہ 2018 کے کمرشل آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا کہ پاکستان سیکورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کی شفٹ اے میں 20 روپے کے نوٹوں کی چھپائی میں غلط دستخط پرنٹ کیئے گئے ، مذکورہ پرنٹنگ میں زائد المیعاد روشنائی کا استعمال بھی کیا گیا جس کی ضرورت سے زائد خریداری کی گئی تھی اور زائد المیعاد ہونے پر 20 روپے کے ایک کروڑ اسی لاکھ نوٹ تین شفٹوں میں چھاپ دیئے گئے ، زائد المیعاد روشنائی کے استعمال کی وجہ سے نوٹ غیر معیاری ہوگئے ، آڈٹ کے دوران نشاندہی ہوئی کہ پہلی شفٹ میں ہی معلوم ہوگیا تھا کہ نوٹوں کی چھپائی معیاری نہیں تاہم اگلی دو شفٹوں میں بھی نوٹوں کی چھپائی جاری رکھی گئی اور نتیجتاً بیس روپے کے ایک نوٹ کی لاگت دو روپے چوبیس پیسے کے حساب سے چار کروڑ چار لاکھ 64 ہزار روپے آئی ، جو نوٹوں کے اسکریپ ہونے پر برباد ہو گئے ۔مذکورہ معاملے کی نشاندہی پر پاکستان سیکورٹی پرنٹنگ کارپوریشن نے معاملے کی تحقیقات کے احکامات دیئے اور تین افسران سینئر منیجر محمد شاہد احمد ، سینئر سپروائزر ارشد رضا اور ڈپٹی منیجر ایم زیڈ طارق کو شوکاز نوٹس جاری کردئے گئے ، مقررہ دنوں میں تینوں افسران نے شوکاز کا جواب دے دیا تاہم انتظامیہ ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئی اور تینوں افسران کے شوکاز نوٹسز پر تین افسران کو تحقیقاتی افسر مقرر کردیا گیا۔
معلوم ہوا کہ ہیڈ آف ڈیزائن ایم لطیف زاہد کو ارشد رضا ، ڈی ایس سی /آپریشنز کے سینئر منیجر مشتاق احمد کو ڈپٹی منیجر ایم زیڈ طارق او ر ہیڈ آف آپریشن اینڈ پرنٹنگ سید ضیا الحسن کو محمد شاہد احمد کے شوکاز پر تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا ، ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ تینوں افسران نے انکوائری مکمل کرکے نقصان اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ حکام کو جمع کرادی ۔
ذرائع نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹس کی روشنی میں پی ایس پی سی نے ارشد رضا کی گریڈ 13 سے سات میں تنزلی کے احکامات جاری کیئے۔ اس کے علاوہ ارشد رضا کے 17 ماہ کے مالی فوائد روکنے کی بھی ہدایت کی گئی ، اسی طرح ڈپٹی منیجر ایم زیڈ طارق کی اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر تنزلی کی گئی اور ان کے بھی سترہ ماہ کے مالی فوائد روکنے کے احکامات دیئے گئے جس پر انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ انکوائری کمیٹی کی سفارش کے باوجود سینئر منیجر محمد شاہد احمد کے خلاف تنزلی کے احکامات سے گریز کیا گیا اور ان کو محض سترہ ماہ کے مالی فوائد ادا نہ کرنے کی سزا سناتے ہوئے انکوائری بند کردی گئی ۔
انتظامیہ نے دو برس بعد انہیں ڈپٹی منیجر کے عہدے پر ترقی دے دی ، ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ آڈٹ کے دوران آڈیٹر جنرل نے مذکورہ معاملے کی از سر نو تحقیقات کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ معاملے کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تاکہ خزانے کو نقصان پہنچانے والے اصل عناصر کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تادیب کی جاسکے ۔ ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک میں کلیدی عہدے پر موجود ایک اعلیٰ افسر نے سزا یافتہ ڈپٹی جنرل منیجر محمد شاہد احمد سے کم از کم جنرل منیجر اور ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی دینےکا وعدہ کرلیا ہے ، مذکورہ افسر سزا یافتہ ہیں اور ایک حساس شعبے میں بطور ڈائریکٹر تعیناتی پر سوالات اٹھیں گے ۔