اسلام آباد ( رائے ولید بھٹی ) تھانہ بھارہ کہو پولیس آٹھ دن گزرنے کے باوجود بھی کمسن بچی کے اندھے قتل کا سراغ نہ لگا سکی ، مقامی سیاسی و سماجی تنظیموں میں تشویش کی لہر ، لواحقین کے احتجاج کو طاقت کے استعمال سے روک دیا، کوریج کرنے والے صحافیوں کو حبس بے جا میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، تفتیشی ٹیم کی ناکامی کا غصہ لوگوں پر نکالا جانے لگا ، تفصیلات کےمطابق 21 مئی کو آٹھ سالہ ( ع ) کی نعش گھر کے قریب سڑک پر ملی تھی جس کا چہرہ اینٹ مار کر مسخ کیا گیا تھا ، مقتولہ والدین میں ناچاقی کے باعثاپنے دادا کے پاس رہائش پذیر تھی جبکہ والد بیرون ملک مقیم ہے ، پولیس ذرائع کے مطابق تفتیشی ٹیم کو شک ہے کہ قتل میں کوئی قریبی عزیز بھی ملوث ہو سکتا ہے ، تفتیشی ٹیم کے ایک رکن نے دعوٰی کیا کہ وقوعہ چند منٹ کے اندر وقوع پذیر ہوا، بچی طویل وقت تک لاپتہ نہیں رہی اور جس بھینسوں کے باڑے کے باہر سے نعش ملی وہ بھی مقتولہ کے قریبی عزیزوں کے زیر استعمال رہا ہے ،مقتولہ کے چہرے پر تشدد یا خراشوں کے نشانات تھے، تاہم قتل کو آٹھ دن گزرنے کے باوجود پولیس مقدمہ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور تفتیش تا حال مفروضوں پر مبنی ہے ، ادھر لواحقین کی جانب سے گزشتہ روز ملزمان کی عدم گرفتاری پر احتجاج کیا گیا اور موقف اختیار کیا گیا کہ پولیس نے ان کے خاندان کے افراد کو تفتیش کے نام پر ہراساںکیاجا رہاہے، اس احتجاج کو پولیس نے بزور طاقت ختم کرایا اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور دھکم پیل بھی کی گئی جبکہ احتجاج کی کوریج پر مامور صحافی بھی حراست میں لے لیے گئے اور صحافی ناصر خٹک ، نعیم منہاس ، قاسم منیر ،ملک طائر اور ملک جاوید سمیت دیگر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ، جس سے صحافی ناصر خٹک شدید زخمی ہوئے، واقعہ پر صحافی تنظیموں کے احتجاج کے بعد انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی اور ایک اے ایس آئی زاہد کو معطل بھی کیا گیا درین اثناء مقامی سیاسی افراد رئیس احمد اور دیگر نے ملزمان کی عدم گرفتاری پر احتجاج کیا اور آئی جی اسلام آباد سے اعلی سطح کی انکوائری ٹیم بنانے کے اپیل کی ہے۔