اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)عام شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کے خلاف آرٹیکل 184(3) کے تحت سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی،اس میں کہاگیاہے کہ یہ معاملہ آئین کے تحت فراہم کیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے او رمذکورہ واقعات کی ایف آئی آرزمیں پاکستان آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کاذکرنہیں تھا اس لیے یہ عمل غیر آئینی قراردیاجائے۔درخواست میں وفاقی حکومت، وزات قانون و انصاف، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، حکومت پنجاب، حکومت خیبرپختونخوا اور حکومت بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ پٹیشن مفاد عامہ میں دائر کی گئی ہے، بے مثال طور پر سویلینز بشمول سیاسی رہنماؤں اور ورکرز کا آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ٹرائل کا معاملہ انتہائی عوامی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ سویلین کا ملٹری ٹرائل یا کورٹ مارشل آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔پٹیشن میں کہا گیا کہ 9 مئی کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 اور 10 مئی کو ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کے واقعات ہوئے۔جس کے بعد تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشت گردی سے متعلق جرائم کے سلسلے میں پورے ملک میں مقدمات درج کیے گئے تاہم ان ایف آئی آرز میں پاکستان آرمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا ذکر نہ ہونے کے باوجود فوج کے کمانڈنگ افسران نے گرفتار ملزمان کی تحویل کی درخواست کی۔درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ کورٹ مارشل یا فوجی عدالت سویلینز کا بہت محدود مواقع پر اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ذکر کردہ جرائم پر ہی ٹرائل کرسکتی ہے۔درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 245 کے نفاذ کے آئین کے آرٹیکل 10، 14، 15 اور 19 پر براہِ راست اثرات ہیں، گرفتار تمام ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے کے عمل کو غیر آئینی قرار دے، اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات چلانے کے لیے گائیڈ لائنز بننے تک ٹرائل روکنے کا حکم دیا جائے۔