پارٹی میں کارکنان سے زیادہ لیڈر ہیں- فائل فوٹو
 پارٹی میں کارکنان سے زیادہ لیڈر ہیں- فائل فوٹو

 پیپلز پارٹی کی نااہل مقامی قیادت جلسہ کامیاب نہ کرا سکی

نواز طاہر:
پاکستان پیپلز پارٹی تمام تر دعوئوں کے باوجود لاہورمیں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ مقامی قیادت اور کارکنوں میں رابطے اور سیاسی تحرک کا فقدان کہا جارہا ہے اور پی پی کے جلسے کو آئندہ الیکشن میں لاہور سے پیپلز پارٹی کے انتخابی نتائج کا ’’پہلا غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ‘‘ قراردیا جارہا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت دعویٰ کررہی ہے کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے حیران کن نتائج حاصل کرے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان پیلز پارٹی نے گذشتہ ماہ لاہور میں پارٹی کی سابق سربرہ اور پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر لاہور میں بڑے جلسے کا اعلان کیا تھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز لبرٹی چوک میں مسلم لیگ ن کے بعد پیپلز پارٹی اپنے اجتماع میں بڑی تعداد میں کارکنوں کو جمع کرے گی۔ اور یہ انتخابی عمل کے حوالے سے لاہور میں باقاعدہ بڑی ایکٹیویٹی ہوگی۔ لیکن منگل کو لاہور کے لبرٹی چوک میں جمع ہونے والے کارکنوں کی تعداد پارٹی کی قیادت کی امیدوں کے برعکس رہی، جس سے مقامی قیادت کی فعالیت اور پارٹی کی لاہور میں مقبولیت کھل کر سامنے آگئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی لاہور کی تنظیم نے اس اجتماع کیلیے ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد دیگر امور سیکیورٹی کے انتظامات اور ٹریفک پلان کی درخواست بھی کی تھی۔ جس کے تحت مقامی پولیس نے ٹریفک اور سیکیورٹی پلان کو حتمی شکل دے کر پیپلز پارٹی رہنمائوں کو مطمئن کیا۔

خاتون ایس پی نے جلسہ گاہ میں کارکنوں کی آمد شروع ہونے سے تین گھنٹے پہلے تمام انتظامات کا خود جائزہ لیا۔ ٹریفک و سیکورٹی پلان کے تحت لبرٹی چوک میں لگائے جانے والے اسٹیج سے کم و بیش نصف کلومیٹر دور حفیظ سینٹر اور اتنے ہی فاصلے سے سینٹر پوائنٹ پر بیریئر لگا کر عام ٹریفک کیلیے راستہ بند کردیا تھا۔ لیکن جلسہ گاہ میں جانے والوں کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ سائیڈ روڈ کو بھی بند نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں سے بھی سیکیورٹی مانیٹرنگ کی گئی۔ یہاں یہ امرقابلِ ذکر ہے کہ جس وقت پیپلز پارٹی کی طرف سے سیکیورٹی اور ٹریفک پلان کیلئے کہا گیا تھا، تب خیال کیا جارہا تھا کہ یہ ٹریفک پلان شہر کے تمام داخلی راستوں کیلئے ہوگا۔ تاکہ قافلوں اور معمول کے ٹریفک میں کوئی خلل اور مشکلات پیدا نہ ہوں۔ پیپلزپارٹی کے جشنِ بے نظیر کا یہ جلسہ ایسے وقت میں کیا گیا، جب سیاسی حلقوں میں بلاول بھٹو زرداری کے مستقبل میں وزیراعظم بننے پر بحث جاری ہے اور پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقے اپنے لیڈر کو اگلے کچھ ماہ میں وزیراعظم کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

ایسے ہی تناظر میں سیاسی رہنمائوں کا رحجان بھی پیپلز پارٹی کی طرف ہوا ہے۔ جبکہ کچھ حلقے ابھی پیپلز ہارٹی میں شمولیت کے اعلان سے پہلے کسی خاص وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ اس اجتماع کے ابتدائی اعلان کے وقت اسے ملک گیر جلسہ بنانے اور لاہور میں بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کے تمام رہنمائوں اور ٹکٹ ہولڈرز کی اپنے علاقوں سے یہاں قافلوں کی صورت میں پہنچنے کی اطلاعات تھیں۔

خیال کیا جارہا تھا کہ اس اجتماع سے پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے۔ لیکن بعد میں اس پر بوجوہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ لبرٹی چوک میں لگائے جانے والے اسٹیج کے سامنے مشرقی جانب پانچ سے چھ ہزار افراد ہی جمع ہوسکے۔

مقامی سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شدید گرمی اور مرکزی قیادت میں اتنی تعداد میں لوگوں کو جمع کرلینا، لاہور جیسے شہر میں پیپلز پارٹی کیلیے بڑی بات ہے، جہاں اس کی قیادت بھی غیر متحرک دکھائی دیتی ہے اور اس اجتماع کیلیے کوئی اشتہار بازی بھی نہیں کی گئی۔ اور مقامی قیادت نے ایسے مواقع کیلیے ہونے والے لازمی اخراجات میں بھی کنجوسی کی ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق یہ جلسہ پی پی پی لاہور کی قیادت کا امتحان ثابت ہوا، جس میں وہ فیل ہوگئی ہے۔ وہ سوا سے ڈیرھ کروڑ کے درمیان آبادی والے شہر سے دس، بیس ہزار افراد کو بھی نہیں نکال سکی۔ پی ایس ایف کے سابق رہنما کامریڈ شفیق پروانہ موجودہ سیاسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے اس جلسے کی اہمیت اور تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ بنیادی طور پر مقامی قیادت کی ناکامی ہے اور جزوی طور پر پوری پارٹی کی ناکام حکمتِ عملی ہے، جس نے موچی دروازہ اور گول باغ کی سیاست کو ایک فیشن ایبل پارٹی پی ٹی آئی کی تقلید میں گلبرگ جیسے پوش علاقے کی لبرٹی مارکیٹ کو اپنا مرکز بنایا۔

پارٹی کی رونق، اندرونِ شہر کے لوگ جلسے کیلئے لبرٹی چوک نہیں جاتے اور وہ بھی ایسے جلسے میں جس میں بھٹو خاندان میں سے کوئی موجود نہ ہو۔ درحقیقت اب پارٹی میں کارکنوں سے زیادہ لیڈر رہ گئے ہیں اور ان میں بھی ’’نمبر ٹانکنے‘‘ والے زیادہ ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ مقامی قیادت کی نا اہلی ہے۔ پارٹی کے کچھ لوگ ایک آدھ ضمنی الیکشن کے بعد سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی معرکہ مارلیا ہے۔ حالانکہ لاہور میں اسٹینڈ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کو سخت محنت اور وقت کی ضرورت ہے۔

جبکہ پیپلز پارٹی کے پرانے اور حقیقی جیالے تو پارٹی قیادت کا بلاول ہائوس تک محدود رہنا پسند نہیں کرتے۔ مقامی سیاسی رہنما بھی مخصوص کارکنوں کو ہر جلسے میں لاتے ہیں۔ نئے لوگوں کو موٹیویٹ نہیں کر پاتے اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش دکھائی دیتی ہے۔‘‘ پیپلز پارٹی کے سینئر کارکن ملک تاج دین نے بتایا کہ، وہ آج بھی ماضی کی طرح اپنا
ٹھیلا کسی کے حوالے کرکے آیا ہے۔ لیکن وہ کسی لیڈر کیلئے نہیں آیا۔ وہ تو بی بی کی سالگرہ منانے والوں کا ’رنگ‘ دیکھنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ پارٹی کی سینئر رہنما نیر بخاری کی جانب سے ایک ٹویٹ میں سانحہ یونان کے سوگ کے پیشِ نظر سادگی اختیار کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور آتش بازی بھی منسوخ کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قانون کے تحت آتش بازی کی ممنوع ہے۔

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر رانا فاروق سعید کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی اصل مقبولیت کی جانب لوٹ رہی ہے ۔ کسی موقع پر بھی نہیں کہا گیا تھا کہ پارٹی کے سربراہ اس اجتماع سے خطاب کررہے ہیں۔ اس وقت بھی آصف زرداری علیل ہیں اور پارٹی کے چیئرمین وزارتِ خارجہ کی ذمے داریان نبھا رہے ہیں۔ لاہور کا اجتماع بھی ضروری ہے، لیکن بیرونی دنیا میں سرگرمیاں اس سے بھی ضروری ہیں۔