قومی اسمبلی کا اجلاس صبح 10 بجے پارلیمںٹ ہاؤس میں ہوگا، فائل فوٹو
قومی اسمبلی کا اجلاس صبح 10 بجے پارلیمںٹ ہاؤس میں ہوگا، فائل فوٹو

قومی اسمبلی کل تحلیل کردی جائے گی

اسلام آباد: 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں 13 اگست 2018ء کو شروع ہونے والی پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی بدھ کو تحلیل کردی جائے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں 13 اگست 2018ء کو شروع ہونے والی پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی بدھ کو تحلیل کردی جائے گی۔

موجودہ قومی اسمبلی نے ایک صدر، دو وزرائے اعظم، دو اسپیکرز اور دو ڈپٹی اسپیکرز منتخب کیے۔ پندرہویں قومی اسمبلی کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ اس اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹایا۔

18 اگست 2018ء کو عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو پہلے ہی روز اپوزیشن نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ قومی اسمبلی میں قائد ایوان عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے درمیان روابط کا یہ عالم تھا کہ دونوں رہنماؤں نے اسمبلی ہال میں کبھی ہاتھ تک نہیں ملایا۔

مارچ 2022ء میں پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں 158 ممبران میں سے 20 ممبران پارٹی سے منحرف ہوئے اور الگ فارورڈ بلاک قائم کیا۔

9 اپریل 2022ء کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو قومی اسمبلی نے 11 اپریل کو شہباز شریف کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا۔

9 اپریل کو ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی عہدے سے استعفیٰ دیا۔

15 اپریل 2022ء کو قومی اسمبلی نے راجہ پرویز اشرف کو نیا اسپیکر منتخب کیا، 20 اپریل کو زاہد درانی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔

11 اپریل 2022ء کو عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 125 ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کے اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد پی ٹی آئی کے بیس رکنی فارورڈ بلاک نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر منتخب کیا۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ قومی اسمبلی کے پہلے پونے چار سال زیادہ قانون سازی نہیں ہوئی لیکن شہباز شریف حکومت کے دوران قومی اسمبلی نے قانون سازی کے ریکارڈز بھی قائم کیے۔

پندرہویں قومی اسمبلی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون میں ترمیم واحد قانون سازی تھی جب اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے عمران خان کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل کی حمایت کی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تنازعات کا شکار رہی، اس اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹایا۔