فائل فوٹو
فائل فوٹو

پولیس دیکھ کر شیخ رشید رفوچکر

احمد خلیل جازم :
پنجاب پولیس نے حسان نیازی کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے مفرور رہنمائوں کی تلاش تیزی سے شروع کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے نام نہاد ’’انقلابی‘‘ لیڈر شیخ رشید کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ شیخ رشید نے اپنی عادت کے مطابق بڑھک ماری تھی کہ وہ یومِ آزادی پر لال حویلی پہنچ کر ’’قوم سے خطاب‘‘ کریں گے۔ لیکن جیسے ہی ان کے کارندوں نے یہ اطلاع دی کہ لال حویلی کے گرد پولیس کا گشت شروع ہوچکا ہے۔ شیخ رشید نے آدھے راستے ہی سے یو ٹرن لینا مناسب سمجھا۔ بعد ازاں خفت مٹانے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک لُولی لنگڑی وضاحت بھی پیش کی۔ تاہم پولیس ذرائع کے مطابق ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور جلد ہی انہیں بِل سے نکال کر دبوچ لیا جائے گا۔

ادھر مراد سعید کے بارے بھی یہ اطلاعات ہیں کہ وہ بھی جلد گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق سزا یافتہ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کا نام اے پلس کیٹگری کے ملزمان میں شامل کر دیا گیا ہے۔ انہیں چند روز قبل ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کو کوئٹہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حسان نیازی کو لاہور منتقل کرنے کیلیے محکمہ داخلہ پنجاب نے ایک لیٹر بلوچستان حکومت کوروانہ کر دیا ہے۔ تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد حسان نیازی کو ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور ایک ٹیم کے ساتھ جاکر اسے کوئٹہ سے لاہور لائیں گے۔ لاہور کے تھانہ سرور روڈ سمیت دیگر تھانوں میں بھی حسان نیازی کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ حسان نیازی کیخلاف کور کمانڈر لاہور کی وردی کی تذلیل کے نا قابلِ تردید شواہد بھی موجود ہیں۔ دوسری جانب شیخ رشید احمد جو سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو ہیں۔ ان کی لوکیشن بھی پولیس ٹریس کرنے کی تگ و دو میں ہے اور ذرائع کہتے ہیں کہ جلد وہ بھی قانون کی گرفت میں ہوں گے۔

تحریک انصاف کی مفرور قیادت کی گرفتاری کی کوششوں کے حوالے سے پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ، نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے نامزد لیڈران سمیت دیگر چار سو سے زائد شرپسندوں کے لیے پولیس نے کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ حسان نیازی اور مراد سعید کے بارے میں یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ گلگت بلتستان میں موجود ہیں۔ حسان نیازی کے ٹھکانے کے بارے گلگت بلتستان میں پولیس کو علم ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسے وہاں سے گرفتار کیا جاتا، اس نے ٹھکانہ تبدیل کرلیا اور خیبر پختون کی جانب روانہ ہوگیا۔ اس کی منزل علاقہ غیر کے علاقے تھے۔ کیوں کہ وزیرستان کا پہاڑی سلسلہ کوہ سلمان میانوالی سے جڑا ہوا ہے۔ اور میانوالی کے اکثر مفرور ملزمان علاقہ غیر میں پناہ لیتے ہیں۔

ماضی میں بڑے بڑے ڈاکو میانوالی سے علاقہ غیر میں پناہ گزین رہے اور اب بھی یہی عالم ہے کہ ڈاکے، قتل دیگر بڑے جرائم کے مجرمان علاقہ غیر میں پناہ گزین ہیں۔ حسان نیازی میانوالی سے ہی ایک رابطے کی وجہ سے علاقہ غیر کی جانب روانہ ہوا تھا۔ میانوالی اس کا آبائی علاقہ ہے اور وہاں سے اسے کافی سپورٹ حاصل ہے۔ اس نے کوہاٹ، ہنگو سے ہوتے ہوئے، نکہ میلا اورکنڈی مشتی کے علاقے میں پناہ لینی تھی۔ اگرچہ یہ علاقے شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں اورآج کل یہاں کے حالات کچھ اچھے نہیں ہیں، لیکن انہی شدت پسندوں نے ہی حسان نیازی کو اپنے پاس محفوظ پناہ گاہ میں رکھنا تھا۔ تاہم وہ ایبٹ آباد سے گرفتار ہوگیا۔ اگر علاقہ غیر پہنچ جاتا تو پھر شاید وہ قانون کی گرفت میں نہ آتا۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مراد سعید اس وقت انتہائی محفوظ مقام پر ہے اور اس تک پولیس کا پہنچنا جلد ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ جس جگہ وہ ہے وہاں پر سیل فون کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جب کہ وہ اگر کوئی پیغام سوشل میڈیا پر لکھنا چاہتا ہے تو اسے لکھ کر بھجواتا ہے، جوکئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ مراد سعید نے اپنے قریبی عزیزوں سے رابطے کے لیے بھی غیر معمولی طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ سیل فون بالکل استعمال نہیں کرتا، نہ ہی باہر نکلتا ہے۔ جہاں پر پناہ گزین ہے وہ جگہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہے اور اس نے کافی حد تک اپنا حلیہ بھی تبدیل کررکھاہے۔ یہ کہنا کہ وہ گلگت بلتستان میں ہے؟ اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ بھی شمالی علاقہ جات ہی کی جانب روپوش ہے، یہ کہنا کہ وہ افغانستان جاچکا ہے درست نہیں ہے۔

جب کہ شیخ رشید احمد نے اپنے دعویٰ کے مطابق چودہ اگست کو لال حویلی آکر خطاب کرنا تھا، لیکن تھانہ وارث خان سے بڑی تعداد میں نفری لال حویلی پہنچی ہوئی تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ رشید احمد جھوٹا انسان ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھکیں مارتا ہے کہ وہ لال حویلی پہنچ رہا ہے یا اس کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔ جب کہ وہ راوکپنڈی اسلام آباد میں موجود ہی نہیں ہے۔ چودہ اگست کو پولیس نے شیخ رشید کے اس بیان پر کہ وہ سوشل میڈیا سے لائیو خطاب کریں گے، اس کے ذریعے بھی شیخ رشید کی لوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ کیوں کہ شیخ رشید احمد ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھے۔