وزارت قانون نے جسٹس منصور کا بطور چیف جسٹس کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا،فائل فوٹو
وزارت قانون نے جسٹس منصور کا بطور چیف جسٹس کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا،فائل فوٹو

نیب ترامیم کیس،جسٹس منصور علی شاہ کا فل کورٹ بنانے کا مشورہ

جسٹس منصور علی شاہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر فل کورٹ بنانے کا مشورہ دے دیا، اور کہا کہ خصوصی عدالتوں سے متعلق کیس میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی، میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ کا حصہ ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں اس کیس کو فل کورٹ کو سننا چاہیے، میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی موجودگی میں یہ کیس پانچ ممبرز کو سننا چاہیے۔

سٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا، خصوصی عدالتوں سے متعلق کیس میں 22 جون کومیں نےنوٹ لکھا، اور اس کیس میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی، میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔

دوسری جانب چیرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث خرابی صحت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے وکیل ڈاکٹر یاسر عمان عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل ڈاکٹر یاسر نے عدالت سے خواجہ حارث کی عدم حاضری پر معذرت کی۔ اور بتایا کہ خواجہ حارث کی طبعیت ناساز ہے، انہوں نے اپنی جگہ مجھے پیش ہونے کی اجازت دی ہے، خواجہ حارث نے عدالت سے معذرت کی ہے۔ جس پر عدالت نے خواجہ حارث کے معاون وکیل کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں کہ کیس کے میرٹس پر ہی فیصلہ کریں، ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے، فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں، یہ کیس 2022 سے زیر التواء ہے، 2023 میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ اعتراض اٹھایا کہ کیا ایکٹ کے بعد موجودہ بینچ کو سماعت جاری رکھنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان جسٹس منصور شاہ کے سوالات پرتیاری کرکے آئیں، کیا یہ کیس کو الگ کیس ہے جس پرقانون لاگو نہیں ہوتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہرکیس کے اپنے حقائق اورمیرٹس ہوتے ہیں، ایک کیس میں دی جانے والی رائے صرف اسی کیس کیلیے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اصول واضح ہے اختلاف رائے آنے پر فیصلہ اکثریت کا ہوتا ہے، ابتک 22 سماعتوں پر درخواستگزار اور 19 سماعتوں پر وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دئیے، یہ کیس اتنا لمبا نہیں تھا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے دوبارہ سوال اٹھایا کہ کیس میں پہلے دن سے پوچھ رہا ہوں کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، 47 سماعتوں سے اب تک نہیں بتایا گیا کوئی بنیادی حقوق متاثر ہوا۔