فائل فوٹو
فائل فوٹو

سائفر کیس میں ملوث کرداروں کو طویل سزا ہو سکتی ہے

احمد خلیل جازم:
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ایف آئی اے نے سائفر لیک کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین کے بعد سابق رکن قومی اسمبلی اسد عمر کو بھی اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔ دونوں رہنمائوں کو سائفر لیک کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ اسی کیس میں پہلے سے گرفتار شدہ چیئرمین تحریک انصاف کی بھی دوبارہ گرفتاری ڈالی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے یوسف نسیم کھوکھر سیکریٹری وزارت داخلہ کی مدعیت میں درج کی تھی۔

ایف آئی اے کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر، شاہ محمود قریشی، عمران خان اور اعظم خان سائفر لیک کیس میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ جب کہ اعظم خان نے عدالت کے سامنے اس حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ جس کے مطابق سائفر پر جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پر لگایا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں پارلیمنٹ سے منظور شدہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کی گئی ہیں، جس کی سزا تین سے چودہ برس ہو تک سکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی بھی ہوسکتا ہے۔ جب کہ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق بعض کیسز میں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کی ایک اور ویڈیو بھی لیک ہوئی ہے جس میں وہ شاہ محمود قریشی سے کہہ رہے ہیں کہ فارن سیکریٹری سے منٹس خاموشی سے لے لینے ہیں۔

سائفر کے حوالے سے ان گرفتاریوں کے بارے میں ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحریک انصاف کے رہنمائوں کی گرفتاریاں ڈالی گئی ہیں اور اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ریاست نے یہ طے کیا ہے کہ سائفر کیس میں جو بھی ملوث ہوگا اسے گرفتار کیا جائے گا۔ یہ بات نگران وفاقی وزیر داخلہ نے بھی کھل کر کہہ دی ہے۔

واضح رہے کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 قانونی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان قوانین میں ترمیم کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کے شور و غوغا کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔ سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگی۔ جب کہ آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہوں، اسے 5 سال قید با مشقت کی سزا ہوگی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے تینوں رہمنائوں اور سائفر لیک سے متعلق ہر شخص ان قوانین کی زد میں آتا ہے۔ اسی وجہ سے شاہ محمود اور اسد عمر کو گرفتارکیا گیا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کی جو دفعات لگائی گئی ہیں وہ انڈر سیکشن 5 اور 9 آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء ترمیم شدہ سیکشن 34PPC ہے جو بہت سنگین دفعات میں شمار ہوتی ہے۔ اور اس کا ٹرائل آرمی عدالتوں میں چلایا جاسکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات اعظم خان کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ایف آئی اے اور مجسٹریٹ کے سامنے دیا کہ عمران خان نے یہ سائفر جو سیکرٹ ڈاکومنٹس ہوتا ہے، اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اور اس کے بعد یہ سیکرٹ ڈاکومنٹ انہوں اپنے پاس ہی رکھا۔ جب واپس مانگا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس نہیں کیا کہ وہ ان سے گم ہوگیا ہے۔ ایکٹ میں شامل ترامیم آرمی چیف کو بھی مزید با اختیار کرتی ہے اور سابق فوجیوں کو سیاست میں شامل ہونے یا ایسے منصوبے شروع کرنے سے روکتی ہے جو فوج کے مفادات کے خلاف ہو سکتے ہوں۔ اس میں فوج کو بدنام کرنے پر قید کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔

آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے دو برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ اس حوالے سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ سائفر کیس میں آرمی کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے بعض سابق اہلکار بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے ذرائع بدستور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ، پی ڈی ایم حکومت نے ایک پپٹ کے طور پر ان قوانین میں ترامیم کرکے انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرایا، جس کا واحد مقصد تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو سبوتاژ کرنا ہے۔ سائفر لیک ایسی دستاویز ایسی نہیں ہے کہ اسے جوں کا توں کسی کو پیش کیا جائے۔

ان ذرائع کا یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی ہے کہ جو آڈیو اس حوالے سے عمران خان کی لیک کی گئی ہیں وہ بھی ایڈیٹ شدہ ہیں، جس میں یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ سائفر لیک کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اگر وہ حقیقی بھی ہیں تو اس میں صرف یہ کہا جارہا کہ قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ سائفر صرف پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس ہی نہیں تھا، بلکہ یہ کچھ صحافیوں کے پاس بھی تھا۔ ایسے بوگس کیس صرف تحریک انصاف کو توڑنے اور اس کے رہنمائوں کو جیلوں میں بند کرنے کی غرض سے بنائے جاتے ہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع کے دعوے کے مطابق شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پر تحریک انصاف چھوڑنے پر پہلے بھی دبائو تھا۔ جب انہوں نے اسٹبلشمنٹ کی بات نہیں مانی تو انہیں سائفر کیس میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ آج اگر یہ دونوں رہنما تحریک انصاف چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں چلے جاتے ہیں تو صاف ستھرے ہوجائیں گے۔ تاہم ان پی ٹی آئی ذرائع کے جھوٹ کا پول پہلے ہی کُھل چکا ہے۔ کیوں کہ نگراں حکومت واضح کر چکی ہے کہ سائفر کا ڈھنڈورا پیٹ کر ملکی ساکھ دائو پر لگانے والے کرداروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔

ادھر گزشتہ روز شاہ محمود قریشی کو عدالت نے ریمانڈ پر ایک دن کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ جب کہ شاہ محمود قریشی نے عدالت سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوٹرن لیا ہے کہ، سائفر عمران خان کی امانت تھا اور وہ انہوں نے عمران خان کو دے دیا تھا۔