سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کی قسمت کا فیصلہ ہونے تک تلوار لٹکی ہوئی ہے، فائل فوٹو
 سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کی قسمت کا فیصلہ ہونے تک تلوار لٹکی ہوئی ہے، فائل فوٹو

’’مجھے باہر نکالو‘‘ قیدی نمبر 804 کی دہائیاں

امت رپورٹ:
مسلسل رونے دھونے کے بعد اٹک جیل میں اگرچہ عمران خان کو بہت سی ایسی سہولیات فراہم کی جاچکی ہیں۔ جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے حرام کر رکھی تھیں۔ اس کے باوجود قیدی نمبر 804 کا ایک ایک دن جیل میں بھاری گزر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جیل سے باہر نکلنے کے لئے جہاں چیئرمین پی ٹی آئی پاکستانی عدلیہ میں موجود اپنے ہمدردوں کی جانب سے رعایت کے منتظر ہیں۔ وہیں انہوں نے پارٹی کے اوورسیز عہدیداروں کو اقوام متحدہ اور عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ہدایت بھی کردی ہے۔ اس سارے پس منظر میں عمران خان کو جیل سے نکالنے کے پلان پر عمل تیز کر دیا گیا ہے۔

لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’سارا پنڈ بھی مرجائے تو مراسی نے چوہدری نہیں بننا‘‘۔ مطلب یہ کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش فوری طور پر پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ ایک طرف عمران خان کو آئین و قانون سے بالاتر ہوکر اگر رعایت دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری سائیڈ والے بھی سو نہیں رہے۔ ایک طرح سے ’’نہلے پہ دہلے‘‘ کا کھیل جاری ہے اور فی الحال ’’نہلے‘‘ کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔ ’’دہلے‘‘ کو اپر ہینڈ حاصل ہے۔

بدھ کے روز ہونے والی عدالتی کارروائیاں اسی ’’نہلے پہ دہلے‘‘ کے گیم کی عکاس ہیں۔ اس وقت عمران خان کی اولین ترجیح توشہ خانہ فوجداری کیس میں ہونے والی سزا کو ختم یا معطل کراکے کسی طرح جیل سے باہر آنا ہے۔ اس کا ٹاسک لطیف کھوسہ کو دیا گیا ہے۔ تاہم ٹاسک پورا کرنے میں ناکامی نے لطیف کھوسہ کی فرسٹریشن بڑھا دی ہے۔ یہ مایوسی، اس سزا کے خلاف دائر درخواست کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی پچھلی سماعت پر دیکھنے میں آئی۔ نہ صرف دوران سماعت لطیف کھوسہ نے گرما گرمی دکھائی۔ بلکہ سماعت کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔

پی ٹی آئی کے حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے بقول دراصل لطیف کھوسہ پر پارٹی قیادت کی جانب سے شدید دبائو ہے کہ وہ اس کیس میں عمران خان کی خواہش کے مطابق انہیں جلد از جلد جیل سے باہر نکلوائیں۔ یوں لطیف کھوسہ کی ساکھ دائو پر لگی ہے اور اپنی کوششوں میں مسلسل ناکامیوں نے انہیں چڑچڑا بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور لطیف کھوسہ کا خیال ہے کہ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے تو من پسند فیصلہ ملنا مشکل ہے۔ تاہم سپریم کورٹ میں ان کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسا دوسری بار ہو رہا ہے کہ جو کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی وہ سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بدھ کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس سے پی ٹی آئی اور لطیف کھوسہ کو خاصی ڈھارس ملی ہے۔ ان ریمارکس کو لے کر پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی حمایت میں بھرپور کمپین شروع کر دی ہے۔

سماعت کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’’توشہ خانہ کیس کا فیصلہ درست نہیں۔ ٹرائل کورٹ کے جج نے فیصلہ جلد بازی میں دیا اور یہ کہ مجرم (عمران خان) کو دفاع کا حق نہیں دیا گیا‘‘۔ یہ ریمارکس سو فیصد عمران خان اور پی ٹی آئی وکلا کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد سے پی ٹی آئی قیادت یہی واویلا کر رہی ہے اور ایک طرح سے چیف جسٹس پاکستان نے ان ہی کے الفاظ دہرادیئے ہیں۔ جسے پی ٹی آئی اپنی کامیابی تصور کر رہی ہے۔

بہت سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسا کیس جو ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہو۔ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر دینا حیرت انگیز ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے بظاہر کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ نہیں دیں گے۔ پہلے ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ آج جمعرات کو اس کیس کی سماعت کے بارے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے بقول جب سپریم کورٹ پہلے سے ہی کسی کیس کے فیصلے کے بارے میں اپنا مائنڈ اپلائی کر دے تو لامحالہ اس کا اثر ماتحت عدالت پر پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ تاثر گہرا ہوگیا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ توشہ خانہ کیس میں سنائی جانے والی سزا معطل نہیں بھی کرتا تو سپریم کورٹ اس سزا کو معطل کرکے عمران خان کی جیل سے رہائی کا بندوبست کر دے گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج (جمعرات کو) اس کیس کی سماعت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف بدھ کے روز سپریم کورٹ سے جو ریمارکس آئے۔ وہ ’’نہلا‘‘ تھا۔ تاہم اسی روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جناح ہائوس حملہ کیس میں عمران خان کو گرفتار کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ ’’دہلا‘‘ ہے۔

ذرائع کے مطابق اگر توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں ضمانت مل بھی جاتی ہے تو جیل سے پھر بھی فوری رہائی ممکن نہیں کہ سائفر کیس میں پہلے ہی ان کی گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔ لہٰذا چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ یوں ان کا قیدی نمبر تو تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن جیل کی سلاخوں سے انہیں نجات نہیں ملے گی۔ ذرائع کے بقول ’’دہلے‘‘ کی چال چلنے والوں کو بھی اندازہ ہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کی سزا سے ریلیف دلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ چنانچہ حفظ ما تقدم کے طور پر پہلے ہی سائفر کیس میں ان کی گرفتاری ڈال دی گئی تھی۔ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جناح ہائوس حملہ کیس میں عمران خان کو گرفتار کرنے کی اجازت دے کر پلان مزید فول پروف بنا دیا ہے۔

ذرائع نے پچھلے دو ہفتوں کے دوران ایک درجن سے زائد مقدمات میں عمران خان کی منسوخ ہونے والی ضمانتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ اگر کوئی انہونی نہیں ہوئی تو کم از کم ایک برس تک عمران خان کو جیل میں رکھنے کا پیکیج تیار ہے۔ ایک کیس میں ریلیف ملے گا تو دوسرے میں اندر کر دیا جائے گا۔ پندرہ ستمبر کے بعد ویسے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو عدلیہ کی جانب سے ملنے والے خصوصی ریلیف کے دروازے بند ہونے کا امکان ہے۔

ادھر نجی ٹی وی چینل کے برطانیہ میں موجود نمائندے نے انکشاف کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے برطانوی وکیل ارشاد یعقوب کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان پر درج مقدمات کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کریں۔ ارشاد یعقوب کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نو مئی کو ملک بھر میں پاک فوج کی تنصیبات پر ہونے والے حملے کے بعد درج مقدمات میں مداخلت کے لئے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں میں لابنگ کریں۔