تین روز سرحد بند رہنے سے افغانستان میں اشیائے خورونوش مہنگی ہو گئیں، فائل فوٹو
 تین روز سرحد بند رہنے سے افغانستان میں اشیائے خورونوش مہنگی ہو گئیں، فائل فوٹو

افغان حکومت نے ٹی ٹی پی سے جواب طلب کرلیا

نمائندہ امت :
افغان حکومت نے ٹی ٹی پی سے پاکستان کے شمالی ضلع چترال کے علاقہ بمبوریت اور پہاڑی سلسلے پر ہونے والے حملوں پر جواب طلب کرلیا ہے۔ یہ کارروائی پاکستانی درخواست پر کی گئی۔ افغان حکومت نے صوبہ نورستان میں ٹی ٹی پی کے کمانڈروں سے کہا ہے کہ پاکستانی چیک پوسٹوں حملوں کی وضاحت دی جائے بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

افغان حکومت نے پاکستان سے طورخم بارڈر کھولنے کی درخواست بھی کی ہے۔ کیونکہ تین روز سے بارڈر بند رہنے کے سبب افغانستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جبکہ ڈالر کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اگر مزید بارڈر بند رہتا ہے تو افغانستان میں ادویات اور خوراک کی قلت پیدا ہو جائے گی۔

افغان وزارت داخلہ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستانی درخواست پر نورستان کے گورنر جمال الدین بدری سے کہا ہے کہ وہ نورستان سے چترال پر حملے میں ملوث افراد کے خلاف نہ صرف کارروائی کریں۔ بلکہ ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ پاکستانی سرحد پر حملے میں ملوث افراد نورستان میں رہائش پذیر رہے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ رہائش پذیر رہے ہیں تو یہ گورنر کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان سرزمین پاکستا ن کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز (اتوار کو) نورستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے کمانڈروں سے گورنر نے طلب کرلیا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ انہوں نے کیوں پاکستان سرحد پار حملے کرائے۔

دوسری جانب افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے طورخم پر ہونے والی جھڑپ میں دو افغان اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کے بعد افغانستان کی جانب سے اشتعال انگیزی پر بارڈر کو بند رکھا گیا ہے۔ جس کے باعث کنٹینرز کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں اور انتظامیہ نے کارخانو مارکیٹ سے آگے مزید کنٹینر ز داخل ہونے سے روک دیئے ہیں۔ شاہراہ طورخم بلاک ہو گئی ہے۔ جبکہ کسٹم حکام، حساس ادار ے اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار کنٹینرز کی جانچ پڑتال کیلئے طورخم پہنچ گئے ہیں کہ آیا ان کنٹینرز میں چینی اور کھاد غیر قانونی طور پر تو اسمگل نہیں کی جارہی۔

جبکہ تین دن طورخم بارڈر بند رہنے کے بعد افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ بارڈر کو فوری طور پر کھول دیں۔ کیونکہ افغانستان کو روزمرہ اشیا کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغانستان میں ڈالر ستّر سے نوے افغانی (افغان کرنسی) ہو گیا ہے۔ جو امریکی انخلا کے وقت 88 افغانی تھا۔ تین دن کی بندش کے بعد ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد افغان حکومت پریشان ہو گئی ہے۔

جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش کے خدشات سے بھی افغان حکومت کو پریشانی لاحق ہے۔ اس لئے افغان حکومت نے فوری طور پر نہ صرف بارڈر کھولنے کی درخواست کی ہے۔ بلکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ملنے والی لسٹ پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ افغان حکومت کو خدشہ ہے کہ پاکستان سے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو بھی واپس بجھوایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ خود افغان حکومت کے بعض اہلکار پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ افغانستان پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ جس پر اعلیٰ حکام نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ جبکہ افغان مہاجروں میں اس اطلاع ملنے پر نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بلکہ چار ملین افغان مہاجرین کو حکومت کی جانب سے آباد کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طورخم گیٹ بند کرنے اور افغان سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کو اچھی ہمسائیگی کے خلاف کارروائی قرار دیتی ہے۔ یاد رہے کہ طورخم گیٹ حکومت پاکستان کی جانب سے گزشتہ بدھ کے روز افغان سرحدی فورسز پر پاکستانی فورسز کی فائرنگ کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ جب افغان فورسز برسوں پہلے تعمیر ہونے والی ایک پرانی سیکورٹی چوکی کی مرمت میں مصروف تھی۔ طورخم روٹ کی بندش سے دونوں ممالک اور خطے کی تجارت متاثر ہوئی ہے اور دونوں اطراف کے عام تاجروں کو تجارتی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس سے قبل صوبہ بلوچستان میں واہگہ ڈیم کے راستے بھارت جانے والے افغان تاجروں کے انجیروں سے لدے ٹرک کو پاکستانی پولیس چوکی کے قریب جلا دیا گیا تھا۔ جس پر شدید تشویش اور عدم اعتماد پیدا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پاکستان حکومت نے کراچی کی بندرگاہ میں افغان سامان اور گاڑیوں سے لدے سینکڑوں کنٹینرز کو روک دیا ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان اور خطے کی تجارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی معیشت جو موجودہ حالات میں اب بھی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ دونوں فریقوں کے لئے مفید ہے کہ وہ خطے کی تجارت، راہداری اور معیشت کو بہتر بنانے کے لئے افہام و تفہیم کے ذریعے ہی مسائل کا حل تلاش کریں اور سیاسی اور دیگر مسائل کو معیشت، تجارت اور لوگوں کے آزادانہ نقل و حرکت کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔