امت رپورٹ :
نئی سیاسی پارٹی بنانے کی افواہیں محض چائے کی پیالی میں طوفان لانے کے مترادف ہیں۔ اس حوالے سے کسی قسم کی عملی کوششیں نہیں ہورہی ہیں۔ نئی سیاسی پارٹی کا خیالی ڈھانچہ چند نظرانداز شدہ سیاستدانوں کی خواہشات پر کھڑا ہے۔ ان خواہشات کی تکمیل کیلئے پہلے "تصور نو پاکستان ” (Reimagining Pakistan) کے عنوان سے منعقدہ سیمینارز کے ذریعے ماحول بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ بیٹھکیں عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہیں ۔
واضح رہے کہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی ایک خواہش کو خبر بنانے کی کوشش کی گئی ، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نئی سیاسی پارٹی بنانے کیلئے شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل ، لشکر رئیسانی ، خواجہ محمد خان ہوتی اور دیگر کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پروگرام کے میزبان نے اس بیان کو بر یکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا بلکہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ (ایکس ) پر یہ پوسٹ بھی کردی کہ ’’اس جماعت کو تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا متبادل بنایا جائے گا‘‘ جس کے بعد سے سوشل میڈیا اور ولاگ پر ایک سلسلہ چل نکلا۔
جب اس معاملے کے حقائق جاننے کی جستجو کی گئی تو ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ کے مصداق معلوم ہوا کہ موصوف سابق سینیٹر نے جن سیاستدانوں کے نام لئے ان میں سے کئی نے خود ہی ایسی پیش رفت سے لاعلمی کا اظہار کر دیا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی نئی پارٹی میں نہیں جارہے۔ ان میں سب سے بڑا نام شاہد خاقان عباسی کا ہے۔
سابق وزیراعظم کے ایک سے زائد قریبی ذرائع سے جب اس حوالے سے معلوم کیا گیا تو ان کا دو ٹوک کہنا تھا کہ عباسی صاحب کسی دوسری یا نئی پارٹی میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور یہ کہ اس بارے میں وہ کھوکھر صاحب کو بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ البتہ انہوں نے ملک کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے کے لئے مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ساتھ مل کر ’’تصور نو پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم سے سیمینارز کا سلسلہ ضرور شروع کر رکھا ہے، لیکن اس کے سیاسی مقاصد نہیں۔
ان قریبی ذرائع نے شاہد خاقان عباسی کے اس حالیہ بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی پارٹی کو نہیں بلکہ ایک میڈیا ہاؤس کو جوائن کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مریم نواز کو نون لیگ کا چیف آرگنائزر بنائے جانے کے بعد سے شاہد خاقان عباسی بجھے بجھے سے ہیں۔ انہوں نے ناصرف پارٹی عہدہ چھوڑ دیا بلکہ کئی بار یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ شاید وہ اگلا الیکشن نہ لڑیں۔ لیکن تاحال انہوں نے نون لیگ سے اپنا راستہ جدا نہیں کیا ہے۔ نہ ہی پارٹی قیادت نے اس حوالے سے ان پر کوئی دباؤ ڈالا ہے۔
نون لیگ برطانیہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اگرچہ شاہد خاقان عباسی نے جس طرح مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ساتھ مل کر سیمنیارز کا سلسلہ شروع کیا، اس کو پارٹی قیادت نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ تاہم پارٹی قیادت شاہد خاقان عباسی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بلکہ تین ماہ قبل جب شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے ملاقات کے لئے لندن آئے تھے تو ان کے گلے شکوے سنے گئے تھے۔
ان ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ خود شاہد خاقان عباسی کو بھی ادراک ہے کہ پارٹی چھوڑنے سے ان کا اپنا سیاسی قد چھوٹا ہو جائے گا۔ اس حوالے سے ان کے سامنے چوہدری نثار کی مثال موجود ہے۔ نون لیگی عہدیدار کے مطابق تاہم مفتاح اسماعیل کے لئے نون لیگ کے دروازے غیر اعلانیہ طور پر پر بند ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر اسحاق ڈار کے خلاف ان کی تنقید کا پارٹی قیادت نے بہت برا منایا ہے۔ پھر یہ کہ ان کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تین ماہ قبل انہیں پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے نون لیگ اور پارٹی کمیٹیوں کے تمام سینئر عہدوں سے خود ہی استعفیٰ دے دیا، ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اب انتخابی سیاست میں سرگرم نہیں ہوں گے۔ دلچسپ امر ہے کہ مفتاح اسماعیل زندگی میں ایک الیکشن بھی نہیں جیت سکے۔ ان کی ساری وزارتیں اور ایڈوائزریاں نون لیگ کی مرہون منت تھیں۔
اب خواجہ محمد خان ہوتی کی بات ہو جائے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ نئی پارٹی کے لئے انہیں بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے دعوے کے بقول کافی حد تک قائل کرنے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ تاہم جب خواجہ محمد خان ہوتی کے ایک قریبی دوست سے جس کے ساتھ وہ اپنے مستقبل کے سیاسی پلان بھی ڈسکس کرتے ہیں ، اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’کھوکھر کو ہوتی پاگل بنا رہا ہے۔ یہ ساری باتیں ہوا میں کی جارہی ہیں۔ عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘‘
اس قریبی دوست کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ ہوتی کا بیٹا عمر دراصل مصطفیٰ نواز کھوکھر کا دوست ہے۔ یہ دوستی بھی دونوں کو قریب کرنے کا سبب بنی۔ خواجہ ہوتی ، مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ’’تصور نو پاکستان‘‘ کے ساتھ تو ضرور ہیں، اور پشاور میں اس پلیٹ فارم کے تحت ہونے والے سیمینار کے میزبان بھی تھے۔ تاہم کھوکھر کی مجوزہ پارٹی میں جانے کا وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
اس قریبی دوست نے خواجہ ہوتی کی تازہ سیاسی سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دو روز قبل اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب کا ویڈیو کلپ بھی بھیجا جس میں خواجہ ہوتی پیپلز پارٹی کے رہنما انور سیف اللہ سمیت پارٹی کے دیگر سابق اور موجودہ عہدیداروں کے ساتھ موجود ہیں۔ یا د رہے کہ خواجہ ہوتی کا پیپلز پارٹی سے دیرینہ تعلق ہے۔ وہ اے این پی، تحریک انصاف اور نون لیگ میں بھی گئے، لیکن اب بھی ان کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔ خواجہ محمد خان ہوتی مردان کے نواب ہیں۔ اگر وہ آزاد امیدوار کے طور پر بھی الیکشن لڑیں تو انہیں قابل ذکر ووٹ مل جاتے ہیں۔
خواجہ ہوتی کے قریبی دوست نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نئی پارٹی کی خواہش رکھنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بننے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر کو جب پارٹی قیادت کے دباؤ پر استعفیٰ دینا پڑا تو ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہو گیا تھا۔ تاہم خواجہ ہوتی کے سمجھانے پر انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کرلیا تھا۔
پھر مفتاح اسماعیل کے ساتھ مل کر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے دماغ میں ’’تصور نو پاکستان‘‘ کا خیال آیا۔ اس پلیٹ فارم کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں متعدد سیمینارز کرائے جاچکے ہیں، لیکن اب تک رنگ نہیں جم سکا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی موروثی اور دوغلی سیاست سے نالاں مصطفیٰ نواز کھوکھر اور دیگر نے ’’تصور نو پاکستان‘‘ کے تحت سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا تھا تو جب بھی ان سے دریافت کیا جاتا کہ یہ سلسلہ کیا کسی نئی سیاسی پارٹی کا آغاز ہے، تو وہ دوٹوک انکار کردیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کے بیانات اور انڈیپینڈنٹ اردو کو دیا گیا ایک انٹرویو ریکارڈ کا حصہ ہے ، جس کی سرخی ان کے یہ الفاظ تھے ’’نئی سیاسی جماعت بنانے کا کوئی ارادہ نہیں‘‘۔