اوپن مارکیٹ میں ڈالر 2روپے سستا ہوگیا، فائل فوٹو
اوپن مارکیٹ میں ڈالر 2روپے سستا ہوگیا، فائل فوٹو

ایف آئی اے کی کالی بھیڑیں ڈالر مافیا کیلیے ڈھال بن گئیں

عمران خان:
معاشی استحکام کی پالیسی کے تحت شروع کیے گئے ڈالر مافیا کے خلاف آپریشن کو ایف آئی اے کی کالی بھیڑوں نے متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ ایف آئی اے میں بعض کرپٹ افسران حوالہ ہنڈی کے خلاف چھاپوں میں کرنسی جیبوں میں بھرنے لگے۔ تفتیش، رائیڈرز اور کیریئرز تک محدود کرکے اصل ملزمان کو بچایا جانے لگا۔

کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کرنے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والا مخصوص ایف آئی اے گروپ جعلی سرکاری نمبر پلیٹ لگی گاریوں میں آزادانہ شہر میں گھومنے لگا ہے۔ جبکہ متاثرین کی جانب سے مذکورہ مخصوص ایف آئی اے ٹولے کے خلاف شکایات کے لئے عدالتوں اور ڈی جی آفس سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے بے لگام ڈالرکو قابو کرنے کیلئے ملک میں کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور حوالہ ہنڈی میں ملوث عناصر کے خلاف ایف آئی اے کو ملک بھر میں کارروائیاں کرنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ جبکہ ڈالرمافیا کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ کارروائیاں مسلسل جاری رکھنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔

مذکورہ ہدایات پر گزشتہ چند مہینوں سے کراچی ،لاہور ،پشاور ،اسلام آباد اور کوئٹہ میں ایف آئی اے کی جانب سے درجنوں چھاپے مارے گئے ہیں، جن میں کروڑوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی ضبط کرکے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تاہم انہی کارروائیوں کی آڑ میں ایف آئی اے میں سرگرم بعض کرپٹ افسران نے اپنے لئے ناجائز آمدنی اور کرپشن کا ذریعہ ڈھونڈ لیا ہے۔

دستیاب اطلاعات کے مطابق، ایکسچینج کمپنیوں، بینکوں اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیادہ تر دفاتر کراچی میں قائم ہیں ۔زر مبادلہ کے لین دین کا سب سے زیادہ کام بھی اسی شہر میں ہوتا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر چند ماہ سے جاری آپریشن میں سب سے زیادہ کارروائیاں ایف آئی اے پشاور نے کیں۔ جبکہ اس کے بعد ایف آئی اے پنجاب اور ایف آئی اے اسلام آباد کی جانب سے کارروائیاں کی گئیں۔ جبکہ ایف آئی اے کراچی کے حکام کو سب سے آخر میں ہوش آیا۔ اس حوالے سے جب معلومات حاصل کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ ایف آئی اے کے مختلف سرکلوں جن میں کمرشل بینکل سرکل ،کارپوریٹ کرائم سرکل اور کرائم سرکل شامل ہیں،

یہاں نئے بیج کے مخصوص افسران نے حوالہ ہنڈی کی کارروائیوں کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم کردیا ہے۔ متعدکارروائیوں میں ان افسران کی جانب سے جب کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کی اطلاع پر ملزمان کے دفاتر، گاڑیوں اور گھروں پر چھاپے مارے گئے تو ان سے ملنے والی ملکی اور غیر ملکی کرنسی میں سے خصوصی طور پر ہزاروں کی مالیت میں ڈالر غائب کردئے گئے۔ اس کرنسی کو ضبط شدہ سامان میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ نصف درجن چھاپوں کے بعد ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ ملزمان سے ملنے والی غیر ملکی کرنسی میں سے 50 فیصد تک ڈالر غائب کردئے گئے، جنہیں بعد ازاں آپس میں تقسیم کردیا گیا اور سرپرستی کرنے والے افسران تک حصہ پہنچایا گیا۔

ذرائع کے بقول حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل، ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل اور ایف آئی اے کرائم سرکل کے افسران جن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر عظیم سرور، اسسٹنٹ ڈائریکٹر بہزاد صفدر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسد علی سوڈر، انسپکٹر ملک جنید حسن، انسپکٹر بانول بھٹو، سب انسپکٹر شیخ شہروز، سب انسپکٹر شاہد اپنی پرائیویٹ گاڑی پر سرکاری سبز رنگ کی نمبر پلیٹ لگا کر شہر بھر میں گھوم رہے ہیں، جوایک غیر قانونی عمل ہے۔ سرکاری نمبر پلیٹ صرف ان سرکاری گاڑیوں پر ہی لگائی جاسکتی ہے جو ادارے کے نام پر الاٹ ہوتی ہیں۔ تاہم اس معاملے پر کارپوریٹ کرائم سرکل کے انچارج ایڈیشنل ڈائریکٹر عمراض ریاض خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں جس کے انچارج عمران ریاض ہیں، کی ماتحت ایف آئی اے ٹیم ڈالر کے غیر قانونی لین دین کی اطلاع پر کلفٹن کے علاقے میں پرائیویٹ گاڑیوں پر پہنچی جہاں پر ایک کار میں موجود افراد سے لاکھوں روپے لئے۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد ملوث ایف آئی اے افسران کے خلاف کلفٹن ٹائون پولیس کے تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے۔ تاہم اس معاملے میں ملوث ایف آئی اے افسران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو اب دبا دیا گیا ہے ۔

ذرائع کے بقول ملک میں غیر قانونی کرنسی کے خلاف ملکی پالیسی سخت ہونے کے بعد حوالہ ہنڈی میں ملوث ملزمان کے حوالے سے انفارمیشن دینے والے مخبروں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے، جنہوں نے اپنے ریٹ بھی بڑھا لئے ہیں۔ ایف آئی اے کے بعض افسران جو روایتی طور پر ملنے والی رقم میں سے 5 فیصد انفارمرکو دیتے تھے، انہوں نے مخبروں کی ڈیمانڈ ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اگر وہ بر آمد ہونے والی رقم میں سے 20 یا 25 فیصد نکال لیتے ہیں تو انہیں مستقبل میں رقم غائب کرنے پر انکوائری بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ جن ملزمان سے رقم بر آمد ہوتی ہے وہ بعد میں کمپلین کرتے ہیں۔ تاہم افسران حوالہ ہنڈی کی کارروائیاں ہر صورت میں کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

اس لئے مخصوص ایف آئی اے افسران نے مخبروں کو 5 سے 10 فیصد دے کر انہی کے نام پر مزید 20 فیصد رقم خود رکھنا شروع کردی ہے۔ چونکہ ایف آئی اے ریڈنگ ٹیم زیادہ تر بغیر مجسٹریٹ کے دفاتر اور گاڑیوں پر کارروائیاں کرتی ہیں، اس لئے سارے اہلکار ملی بھگت سے رقم غائب کرکے ایک جسی بر آمدگی ظاہر کرتے ہیں۔ انچارج اور اعلی افسران بھی اس بات کو سمجھتے ہیں تاہم حصہ ملنے پر خاموش رہتے ہیں ۔

یہ کرپشن اہم آپریشن کے مقاصد کو متاثر کرنے کے ساتھ ناکامی کا سبب بن رہی ہے۔ کیونکہ ملوث ایف آئی اے افسران نہ صرف رقم غائب کرتے ہیں بلکہ ملزمان سے سیٹنگ بنا کر ان کے کیس میں تفتیش بھی خراب کردیتے ہیں۔ اور ہاتھ ہلکا رکھنے کے عوض مزید رقم وصول کر لیتے ہیں ۔

حالیہ دنوں میں زیادہ تر کارروائیوں میں صرف رقوم دفاتر سے شہریوںتک پہنچانے والے کیریئرز اور رائیڈرز پکڑے گئے ہیں۔ جبکہ ان سے تفتیش میں حوالہ ہنڈی کے اصل مگرمچھوں کا سراغ لگا کر انہیں نامزد نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی ان شہریوں کے کوائف کو کیسوں کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو ڈالر غیر قانونی طور پر خرید کر ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح درجنوں کیسوں میں اصل ملزموں کے خلاف کارروائی کرکے حکومت کی رٹ بحال کی جاسکتی تھی۔ تاہم ایف آئی اے کے ملوث افسران کی کرپشن کی وجہ سے ایسا اب تک نہیں ہوسکا ہے۔