فائل فوٹو
فائل فوٹو

بشریٰ بیبی کی گرفتاری کیلیے نیب کو ضمانت منسوخی کا انتظار

امت رپورٹ:
بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی گرفتاری کے لئے نیب کو دو کیسوں اور پولیس کو ایک کیس میں ان کی ضمانت منسوخی کا انتظار ہے۔ سابق خاتون اول نے اس وقت تین اہم مقدمات میں عبوری ضمانت کرا رکھی ہے۔

ان میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کا القادر ٹرسٹ کیس، توشہ خانہ کیس اور جعلی رسیدوں کا مقدمہ شامل ہے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیر سماعت توشہ خانہ کیس اور ایک سو نوے ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں بشریٰ بی بی نے بارہ اکتوبر تک ضمانت لے رکھی ہے۔ دونوں کیسوں کی آخری سماعت چھبیس ستمبر کو ہوئی تھی۔ جعلی رسیدوں سے متعلق تیسرا کیس بشریٰ بی بی کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں چل رہا ہے۔ یہ مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا تھا۔ اس کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ سولہ اکتوبر تک عبوری ضمانت پر ہیں۔

ان تینوں کیسوں میں بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانتوں میں متعدد بار توسیع کی جاچکی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں القادر ٹرسٹ کیس یا توشہ خانہ کیس میں بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت منسوخ ہو سکتی ہے۔ ضمانت منسوخ ہوتے ہی نیب گرفتاری میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔ بشریٰ بی بی اور ان کے اسیر شوہر عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کی انکوائری اب انوسٹی گیشن میں تبدیل ہو چکی ہے۔

ذرائع کے بقول دونوں میاں بیوی کے خلاف اس کیس میں نیب کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس یا تو شہ خانہ کیس میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر اگر بشریٰ بی بی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ ان بعض پرانے نیب قوانین کی زد میں بھی آجائیں گی، جنہیں خود ان کے شوہر عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ نے دوبارہ بحال کیا ہے۔

مثلاً سابق اتحادی حکومت نے نیب قوانین میں جو ترامیم کی تھیں، ان میں سے ایک ترمیم کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ ویسے تو نیب ذرائع کا دعوی ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ تاہم اگر ایسا نہیں بھی ہے تو نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اب گرفتاری کے لئے شواہد کی دستیابی ضروری نہیں رہی اور ماضی کی طرح انکوائری یا تفتیش کی اسٹیج پر ہی ملزم کو دھرا جاسکتا ہے۔

نیب ترامیم کی ایک شق ایسی تھی جسے عمران خان نے چیلنج نہیں کیا۔ یہ ترمیم گرفتار ملزم کے نوے روزہ ریمانڈ کو کم کر کے چودہ دن کے ریمانڈ میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے۔ تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے سابق حکومت نے اس مدت کو تیس دن تک بڑھا دیا تھا۔ چنانچہ بشریٰ بی بی القادر ٹرسٹ کیس یا توشہ خانہ کیس میں نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوتی ہیں تو تیس دن تک ضمانت نہیں کرا سکیں گی۔ توشہ خانہ کیس میں نیب پراسیکیوٹر کو یہ شکوا بھی ہے کہ ملزمہ تفتیش میں تعاون نہیں کر رہی۔ بشریٰ بی بی کو متعدد بار توشہ خانہ کے زیورات پیش کرنے کا کہا گیا ہے، لیکن اب تک انہوں نے یہ زیورات پیش نہیں کیے ہیں۔

رواں برس کم از کم چھ بار بشریٰ بی بی کی متوقع گرفتاری کی خبریں چل چکی ہیں۔ ایک موقع پر تو خود پی ٹی آئی کے وکلا یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ کسی بھی وقت سابق خاتون اول کو حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ان کے شوہر نامدار عمران خان ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے۔ شوہر موصوف کا بھی یہی خیال تھا کہ انہیں بیوی سمیت سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ لیکن ان کا یہ خوف بے بنیاد نکلا تھا۔

بعد ازاں پانچ اگست کو جب توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا سنائے جانے پر آخرکار عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا، تو اس وقت بھی بشریٰ بی بی کو اپنی گرفتاری کا شدید خوف لاحق ہو گیا تھا۔ ذرائع کے بقول خود پی ٹی آئی کے وکلا نے ان کے اس خوف کو بڑھاوا دیا تھا۔ وکلا ٹیم کا خیال تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد زمان پارک پر چھاپہ مارکر بشری بی بی کو بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ گزشتہ ماہ توشہ خانہ جعلی رسیدکیس میں پولیس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد سے بشریٰ بی بی کی گرفتاری مانگ لی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ جعل سازی کیس کے مقدمے کی تفتیش آگے بڑھانے کے لیے سابق خاتون اول کی گرفتاری مطلوب ہے۔ تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر کے خطرہ ٹال دیا تھا۔

اس طرح کے معاملات کو قریب سے دیکھنے والے ایک سابق افسر کے بقول اس سے پہلے یہ ملین ڈالر کا سوال بنا ہوا تھا کہ عمران خان کب گرفتار ہوں گے؟ اب یہی بات بشریٰ بی بی کے لئے کہی جارہی ہے۔ سابق افسر کے مطابق دراصل ہر چیز کی ایک ٹائمنگ ہوتی ہے۔ جس طرح آخرکار عمران خان گرفتار ہوگئے تھے۔ اسی طرح ’’مناسب وقت‘‘ پر بشریٰ بی بی کی گرفتاری بھی عمل میں آجائے گی۔ اور یہ ’’مناسب وقت‘‘ بہت نزدیک نہیں تو زیادہ دور بھی نہیں۔

ادھر لاہور میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی، بزدار دور حکومت میں تقرر و تبادلوں کی مد میں بطور رشوت وصولی کے اسکینڈل کی زد میں بھی آسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، بشریٰ بی بی کے بیٹے ابراہیم مانیکا اور قریبی ساتھی فرح گوگی کے علاوہ اس دور میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات اہم بیوروکریٹس کے خلاف ایف آئی آر درج کررکھی ہے۔

اس بارے میں بتایا جاتا ہے کہ بزدار دور میں بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی فرح گوگی کو غیرقانونی ٹرانسفر اور پوسٹنگ، رشوت اور کمیشن کی مد میں چار سو پچاس ملین روپے ادا کئے گئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بشریٰ بی بی بھی اس کیس کی زد میں آسکتی ہیں۔ عثمان بزدار کے دور میں رشوت کے عوض ہونے والے ان تقرر و تبادلوں کی مکمل فہرست تیار کی جا چکی ہے۔