تنازعے میں سعودی مؤقف امریکا کیلیے دھچکا ہے، فائل فوٹو
تنازعے میں سعودی مؤقف امریکا کیلیے دھچکا ہے، فائل فوٹو

غزہ جنگ پر مسلم حکمرانوں کا کردار سوالیہ نشان

محمد علی:
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے سفاکانہ محاصرے پر مسلم حکومتوں کا کردار سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی خوشنوی کیلیے مصری آمر السیسی کی حکومت نے غزہ میں پھنسے محکوم فلسطینیوں کو محفوظ راستہ دینے سے انکار کر دیا ۔

السیسی حکومت کے اس مجرمانہ اقدام پر مصری عوام شاکی ہیں۔ جہاں اسرائیل کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان اور ترکیہ میں بھی عوامی سطح پر غاصب اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مگر حکومتوں نے محتاط رویہ اپنا رکھا ہے۔ جبکہ کویت، قطر اور انڈونیشیا ان چند مسلم ممالک میں سے ہیں۔ جنہوں نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے ہی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا۔

ان ممالک نے واضح مؤقف اپنایا کہ اسرائیل نے ہمیشہ فلسطینی عوام کو دبانے کیلئے طاقت کا بھیانک استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے حماس نے اپنی مزاحمتی تحریک شروع کی۔ ادھر حماس اسرائیل تنازعے پر سعودیہ کے مؤقف کو بھی امریکہ کیلئے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں بمباری پر کہا تھا کہ ان حملوں کو فوری طور پر روکا جائے اور یہ کہ اس مسئلے کا حل صرف دو ریاستی روایتی پالیسی میں مضمر ہے۔ تاہم فلسطین کے حق میں روایتی بیان اور جنگ بندی کے مطالبے کے علاوہ مسلم ممالک کی حکومتوں کی جانب سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس صورتحال میں صرف اردن ایک ایسا ملک ہے، جس نے غزہ کیلئے ضروری امداد بھیج دی ہے۔

اردنی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز فوجی طیارہ غزہ کیلئے طبی سامان لر کر مصر پہنچا۔ اردن کی فلاحی تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین الشبلی نے بتایا کہ امداد میں فلسطینی علاقے میں کام کرنے والے اسپتالوں اور صحت کے اداروں کیلئے ادویات اور طبی سامان شامل ہے۔ اطلاعات ہیں کہ رفح گزرگاہ کی بندش کے سبب یہ سامان اب تک مصر سے غزہ نہیں لے جایا جاسکا ہے۔ مصر کو یہ امداد غزہ پہنچانے کیلئے بھی اسرائیل کی کلیئرنس درکار ہے۔ جو فلسطینیوں کے کا ناحق خون بہا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ان سطور کے لکھے جانے تک اسرائیل کی 6 روز سے جاری بمباری میں 1300 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کو باقی دنیا سے مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہے۔ 5 میں سے 3 واٹر اسٹیشن غیر فعال ہو چکے۔ جبکہ اسرائیل نے غزہ کا پانی اور بجلی پہلے ہی بند کر رکھا ہے۔ اسرائیل نے ایک اور سفاکانہ عمل کرتے ہوئے اسرائیلی قیدیوں کا پانی بھی بند کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ نے غزہ کے مکمل محاصرے کی مذمت کی اور کہا ہے کہ اسرائیل، جنگ کے عالمی قوانین کی پاسداری کرے۔ اقوام متحدہ کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اس کے عملے کے کم از کم 11 اراکین اور اس کے اسکولوں میں موجود تقریباً 30 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔

بدھ کے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی تنصیبات، اسپتال اور اسکولوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

اسی طرح عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پر قاہرہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کی مذمت کی اور محصور شہر میں فوری طور پر امداد کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔

خبر ساں ادارے رائٹرز کے مطابق قاہرہ میں عرب لیگ کے ہیڈ کوارٹرز میں عرب وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں وزرا نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پر گفتگو کی اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل غزہ کی اپنی ناکہ بندی ختم کر دے۔ دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیل حماس تنازعہ ختم کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ، یورپ اور دیگر خطوں کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فریقین کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کریں جو منصفانہ اور انسانی ہمدردی کے توازن پر مبنی ہو۔ اسرائیل پر براہ راست الزام نہ لگاتے ہوئے ترکیہ نے کہا کہ لڑائی کی وجہ فلسطینیوں کے خلاف برسوں کی ناانصافی ہے۔ امن کا واحد راستہ دو ریاستی حل سے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔