ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان کی دفاعی حکمت عملی ناکام رہی۔ فائل فوٹو
ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان کی دفاعی حکمت عملی ناکام رہی۔ فائل فوٹو

بابرکے دوستوں کی ٹیم نے ناک کٹوادی

امت رپورٹ:
بابر کے دوستوں کی ٹیم نے ناک کٹوا دی۔ بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد سوشل میڈٖیا پر بھی بابر الیون کو لے کر خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاک بھارت میچ سے پہلے بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ پاکستان ایک ریگولر اسپنر کے ساُتھ بھارت کے خلاف میدان میں اترے گا۔

اس حوالے ابرار احمد اور اسامہ میر میں سے کسی ایک کا نام لیا جارہا تھا۔ لیکن یہاں بھی کپتان بابر اعظم کی دفاعی سوچ غالب آئی۔ اس تبدیلی کے بجائے محمد نواز اور شاداب خان ہی کو ٹیم میں کھلانے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے پاس آٹھ نمبر تک بیٹنگ رہے۔ لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی یہ دفاعی حکمت عملی ناکام رہی۔ شاداب اور نواز بالترتیب محض دو اور چار رنز بناسکے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلے کہ نواز اور شاداب کا شمار کپتان بابر اعظم کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے۔

بابر کے حوالے سے معروف پانچ کے ٹولے میں یہ دو کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کرکٹ پنڈتوں کی اکثریت کا ٰخیال تھا کہ امام الحق کی جگہ بھارت کیخلاف فخرزمان کو موقع دیا جائے گا۔ اگرچہ دونوں اوپننگ بیٹسمین آئوٹ آف فارم ہیں۔ لیکن فخر زمان کا ریکارڈ چونکہ بھارت کے خلاف اچھا ہے اس لیے کہا جارہا تھا کہ بھارت کے خلاف فخر زمان کو موقع دینا سود مند ثابت ہوگا۔ لیکن یہاں چیف سلیکٹر انضمام الحق کا بھتیجا امام الحق اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین میچ میں محض ایک کھیل نہیں ہوتا۔ دونوں ممالک کے مابین کشیدہ حالات اور ماضی کی جنگوں نے کرکٹ کے کھیل کو بھی ایک معرکہ بنا رکھا ہے۔ لہذا جب بھی بھارت کے ساتھ پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو 24 کروڑ پاکستانیوں کے جذبات اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ لہذا کرکٹ ٹیم کے ان کھلاڑیوں کی ڈیوٹی بنتی ہے کہ وہ ناصرف پاکستانیوں کے ان جذبات کا خیال کرے، بلکہ لاکھوں روپے کے معاوضے کو بھی حلال کرے۔ کمزور معیشت کا یہ ملک کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ان کی کارکردگی سے کہیں بڑھ کر معاوضہ ادا کرتا ہے۔

اے کیٹگری میں شامل بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی کو ماہانہ پینتالیس لاکھ روپے فی کس، بی کیٹگری میں شامل فخر زمان، حارث رئوف، امام الحق، محمد نواز اور شاداب خان کو فی کس ماہانہ تیس لاکھ روپے، سی کیٹگری میں شامل میں شامل عماد وسیم اور عبداللہ شفیق کو فی کس ماہانہ پندرہ لاکھ روپے اور ڈی کیٹگری میں شامل حسن علی، افتخار احمد، سعود شکیل اور سلمان علی آغا کو ماہانہ فی کس سات لاکھ روپے دیے جارہے ہیں۔

صرف یہی نہیں ورلڈکپ شروع ہونے سے پہلے ان کھلاڑیوں نے یہ جھگڑا شروع کردیا تھا کہ انہیں کرکٹ بورڈ کی آمدنی سے بھی حصہ دیا جائے۔ ان لاڈلوں کی اس ضد کے آگے کرکٹ بورڈ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک معاہدے کے تحت اب کرکٹ ٹیم کو بورڈ کی آمدنی سے تین فیصد بھی ادا کیا جائے گا۔ یہ کمائی بھی کروڑوں میں بنتی ہے۔

اب اندازہ لگائیں کہ بھارت جیسے دشمن ملک کیخلاف تقریباً ہر بار انتہائی ناقص کارکردگی دکھا کر یکطرفہ طور پر ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنی تجوری بھرنے پر تو پوری توجہ رکھی ہوئی ہے لیکن انہیں پاکستانی قوم کے جذبات کا ذرہ برابر احساس نہیں کیا۔