تمام طلبا و طالبات اپنے اپنے اسکولوں سے ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں گے۔ فائل فوٹو
تمام طلبا و طالبات اپنے اپنے اسکولوں سے ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں گے۔ فائل فوٹو

ایک لاکھ روپے میں میٹرک پاس کرانے کا پلان پکڑا گیا

سید حسن شاہ : تیسری قسط
میٹرک بورڈ میں ایک اور گھناؤنے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے تحت نصف لاکھ کے قریب طلبا کو فرضی میٹرک پاس کرایا جانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ملوث میٹرک بورڈ افسران کی تجوری میں مجموعی طور پر ساڑھے تین ارب روپے آنے تھے۔ لیکن امتحانی مراکز میں غیر حاضریوں کی نشاندہی پر بھانڈا پھوٹ گیا۔ جس کی وجہ سے اس منصوبے پر عملدرآمد رکا ہوا ہے۔

بورڈ آفس کے ایک افسر نے بورڈ کے کھاتوں میں 43 ہزار بوگس رجسٹریشن کے حوالے سے بتایا کہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کے انرولمنٹ سیکشن نے اچانک 43 ہزار طلبہ کا ریکارڈ میں اضافہ کردیا ہے۔ ان رجسٹریشن نمبرز پر فی کس 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے وصول کیے جاتے۔

بورڈ کے شعبہ امتحانات نے رواں سال نتائج کے بعد ڈائریکٹ میٹرک پاس کی اسناد دینے کیلئے ہر امتحانی سینٹر کے رول نمبرز کی رینج میں 80 سے 100 رول نمبرز فرضی الاٹ کیے۔ اس طرح 524 امتحانی مراکز میں یہ تعداد 43000 کے قریب بنتی ہے۔ ذرائع کے مطابق 2022ء کے امتحانی نتائج کے اعلان کے بعد بورڈ کے شعبہ امتحانات کے عملے نے تقریبا 40 ہزار امیدواروں کو 10 ہزار فی امیدوار کے حساب سے میٹرک کی اسناد فروخت کی تھیں اور کروڑوں روپے ایجنٹوں کی ملی بھگت سے وصول کیے تھے۔

ایجنٹوں کی جانب سے صرف نام، ولدیت اور تاریخ پیدائش واٹس ایپ کرکے میٹرک کی سند حاصل کی جارہی تھی۔ شکایات بڑھنے پر چیئرمین بورڈ سید شرف علی شاہ نے رول نمبرز کی رینج کلوز کرکے گزٹ کا پرنٹ نکال کر اپنے آفس میں رکھ لیا تھا۔ جس کے بعد محدود پیمانے پر اسناد فروخت کی گئیں اور ریٹ 10 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ روپے ہوگیا۔ معاملہ کھلنے کے باوجود شعبہ امتحانات کے عملے نے اس سال پیشگی حکمت عملی طے کرتے ہوئے 43 ہزار اضافی رول نمبرز الاٹ کیے۔

ہر امتحانی مرکز میں بورڈ کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق 80 سے 100 امیدواروں کے رول نمبرز اضافی اور فرضی تھے۔ جو حاضری کی شیٹ میں واضح ہورہے تھے۔ امتحانات کے دوران غیر حاضر طلبہ کی تعداد معلوم کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کام تمام امتحانی مرکز میں ہورہا تھا۔ جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ شعبہ امتحانات نے فرضی انرولمنٹ کی ہے۔ اس ضمن میں چیئرمین بورڈ سید شرف علی شاہ نے امتحانات کے اختتام سے قبل ایک افسر کو معاملے کی چھان بین کی ذمہ داری دی۔ جس نے امتحانی مراکز سے معلومات حاصل کرکے شواہد انتظامیہ کو فراہم کردیئے۔ تاہم اس بڑے پیمانے پر کرپشن کے شواہد موصول ہونے کے باوجود متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور معاملے کو دبا دیا گیا۔

امتحانی نتائج میں ردوبدل اور کرپشن کے الزامات پر میٹرک بورڈ کے قائمقام ناظم امتحانات عمران بٹ کو 9 اکتوبر 2023ء کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ اس ضمن میں چیئرمین میٹرک بورڈ نے کہا کہ میٹرک بورڈ کے نتائج برائے سال 2023ء کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبروں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نتائج کی شفافیت کو جانچنے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے، اور فیصلے پر عملدرآمد کرتے فوری طور پر تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔

چیئرمین بورڈ نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر قائمقام ناظم امتحانات عمران طارق بٹ کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا ہے اور ڈپٹی کنٹرولر خالد احسان کو قائمقام ناظم امتحانات کا چارج دے دیا ہے۔ ’’امت‘‘ نے نئے ناظم امتحانات سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ تین برس تک پہلے بھی ناظم امتحانات کی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ہیں اور ان کی تعیناتی کے دوران کسی قسم کی شکایات انتظامیہ کو موصول نہیں ہوئیں۔ انہیں شعبہ امتحانات کا تجربہ ہے اور کئی برس سے ڈپٹی کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چیئرمین بورڈ نے معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے جس پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے اور انکوائری مکمل ہونے پر ذمہ دار افسران کے خلاف یقینی کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ معطلی کے بعد حیرت انگیز طور پر اٹھارہ گریڈ کے افسر عمران بٹ نے بورڈ انتظامیہ کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہیں محض میڈیا میں خبریں چلنے پر عہدے سے برطرف کیا گیا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ عمران بٹ کے پاس قائمقام ناظم امتحانات کا چارج تھا۔ جبکہ وہ او پی ایس افسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ جو سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عمران بٹ کو عہدے سے ہٹانے کے بعد نئے بننے والے ناظم امتحانات خالد احسان اچھی شہرت کے حامل ہیں اور ان کے دور میں ایجنٹوں کا بورڈ آفس میں داخلہ تقریباً بند ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ تاہم ان کے ماتحت ٹیم نے آنے والے امتحانات میں رقوم بٹورنے کیلئے ہوم ورک شروع کردیا ہے۔

بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد احسان کے ماتحت افسران جن میں ڈپٹی کنٹرولرز بھی شامل ہیں، اربوں روپے کے مذکورہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔ شعبہ امتحانات میں کنٹریکٹ پر بھرتی افراد بورڈ میں کلیدی عہدوں پر براجمان افسران کی اولادیں ہیں۔ جنہیں سیکریسی تک رسائی دی گئی ہے۔ بورڈ میں کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے آنے والی اقساط میں تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔ جس میں مزید اہم انکشافات سامنے آئیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن کراچی کے ناظم امتحانات کی معطلی کے بعد ہی نویں و دسویں کے سالانہ امتحانات 2023ء میں 43 ہزار سے زائد اضافی انرولمنٹ ہونے پر شعبہ امتحانات کی کرپٹ ٹیم نے دوبارہ ایجنٹوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں اور مذکورہ فرضی رول نمبرز کا فی رول نمبر80 ہزارسے ایک لاکھ روپے کا ریٹ طے کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ دھندا آئی ٹی سیکشن سے چلایا جائے گا جہاں فرضی انرولمنٹ موجود ہیں۔

میٹرک بورڈ کے ایک ایجنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شعبہ امتحانات کے کرپٹ افسران نے ایجنٹوں کو کم از کم 80 ہزار فی کس کے حساب سے ریٹ دیئے ہیں۔ جس میں مزید کمی نہیں کی جائے گی۔ مذکورہ رقم میں ایجنٹوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ جو فی بچہ تیس ہزار روپے رکھا گیا ہے۔ میٹرک بورڈ کے کئی معاملات پر انکوائریاں شروع ہونے کے باعث ایجنٹوں نے کام ہوجانے کی یقین دہانی کرانے کو کہا تو شعبے کے بڑے افسر نے گارنٹی دی کہ یہ کام میں اپنے نگرانی میں کرواؤں گا۔

ذرائع نے بتایا کہ میٹرک بورڈ کے سابق ناظم امتحانات نے آئی ٹی سیکشن کے سابق انچارج افتخار ابڑو کے ملی بھگت سے رواں سال نتائج کے بعد ڈائریکٹ میٹرک پاس کی اسناد دینے کے منصوبے پر عملدرآمد کرنا تھا۔ تاہم ان کی تعیناتی غیرقانونی ہونے پر انہیں واپس ان کے محکمہ میں رپورٹ کرنے کے احکامات دیئے گئے اور اس وقت کے ناظم امتحانات نے آرڈر موصول ہوتے ہی افتخار ابڑو سے چارج لیکر انہیں دفتر سے نکال باہر کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ افتخار ابڑو نے عمران بٹ کے کہنے پر کئی غیر قانونی کام کیے تھے۔ تاہم اس کے خلاف وزیراعلیٰ کی جانب سے نوٹس لینے پر افتخار ابڑو کو ایک روز کی مہلت بھی نہ دی گئی۔ ( جاری ہے )