اقبال اعوان :
کراچی میں گٹکے، ماوا، مین پوری کے شوقین شہری نسوار کو ترجیح دینے لگے۔ جس کے بعد نسوار کی فروخت میں اضافہ ہو گیا۔ نسوار فروشوں کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار ماضی کی نسبت 50 فیصد بڑھ گیا ہے۔
دوسری جانب گٹکے کے شوقین ماہی گیر، گٹکے پر بندش اور مہنگا ہونے پر گٹکے کے بجائے نسوار کی پڑیاں سمندر میں لے کر جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ عدالت عظمی کی جانب سے گٹکے، مین پوری، ماوا کے خلاف سخت احکامات دیئے گئے تھے کہ شہر میں منہ، حلق، معدے، کھانے کی نالی، جبڑا اور دیگر اعضا کا کینسر بڑھ گیا ہے۔ تین، چار سال میں متعدد بار کریک ڈائون کیا گیا۔ تاہم رزلٹ صفر آتا تھا اور پولیس کا بھتہ بڑھ جاتا تھا۔
چھالیہ کی اسمگلنگ کا سلسلہ نہ رک سکا تھا۔ تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران گٹکے، ماوا، مین پوری کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا۔ شہر میں بااثر افراد سیاسی افراد، پولیس اور دیگر اداروں کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ جس کے بعد گٹکے، ماوا، مین پوری کا کام رک گیا۔ جبکہ اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے چھالیہ، کتھا، انڈین ڈرائی گٹکے کے خلاف آپریشن کر کے بڑی مقدار پکڑی۔
اولڈ سٹی ایریا کی چھالیہ مارکیٹ میں دو ماہ قبل 900 روپے کلو فروخت ہونے والی چھالیہ 21 سو روپے فی کلو تک فروخت ہونے لگی۔ شہر میں گٹکا، ماوا اور مین پوری کھانے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ جس کے بعد گٹکا، ماوا، مین پوری، میٹھی چھالیہ، سادی چھالیہ کے ریٹ 3 گنا بڑھ گئے۔
شہر میں اب گٹکا کھانے والے 40 فیصد لوگ موجود ہیں۔ جن میں اکثریت گھروں پر اپنے لیے تیار کرتی تھی۔ جبکہ گٹکا، ماوا، مین پوری اب لیاری، ملیر، گڈاپ، منگھوپیر، کیماڑی، بھینس کالونی اور لانڈھی کورنگی کے علاوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ مگر 60 روپے والا پیکٹ بلیک میں 200 سے ڈھائی سو روپے کا مل رہا ہے۔ جبکہ نسوار20 سے 30 روپے فی پڑیا تک مل رہی ہے۔
شہر میں سادی نسوار، 555 والی نسوار، بادام نسوار، چارمنگ نسوار کے علاوہ پشاور، باجوڑ، بنوں اور کوئٹہ کی الگ الگ نسوار آتی ہے۔ کراچی میں گٹکا، ماوا، مین پوری اردو بولنے والوں میں زیادہ چل رہا تھا۔ جبکہ کچھی، میمن، بلوچی، سندھی بھی زیادہ کھاتے ہیں۔ شہر میں نسوار تیار کرنے کی مشین بنارس، صدر، فیوچر موڑ، لانڈھی اور پختون آبادیوں میں زیادہ ہیں۔
نسوار بنانے والے احمد گل کا کہنا تھا کہ نسوار کی تیاری کے لیے تمباکو پنجاب کے شہر جام پور سے زیادہ آتا ہے۔ اسے چونا، لکڑی کی راکھ ملا کر پیس لیتے ہیں اور اسپیشل نسوار میں اسپغول کی بھوسی اور اجینوموتو طرز کا ’’ست‘‘ کا استعمال کرتے ہیں جو منہ میں ٹھنڈک لاتا ہے۔
فیوچر کالونی کے دکان دار ہاشم خان کا کہنا تھا کہ سادی نسوار کا پیکٹ 10 روپے کا مل جاتا ہے۔ کراچی میں اب گٹکے، ماوا، مین پوری والے اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے متبادل نسوار لگا رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اب درجنوں ناموں سے نسوار آرہی ہے۔ جبکہ پختون آبادیوں میں باقاعدہ ہاتھ یا الیکٹرک کٹائی والی مشینیں لگی ہیں۔ کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل، لیاقت آباد، بلدیہ، سرجانی، ناظم آباد، نارتھ کراچی سمیت اردو بولنے والوں کے علاقوں میں نسوار کا کاروبار چمک اٹھا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نسوار کی تیاری میں چونا، راکھ، تمباکو شامل ہوتا ہے۔ اس لیے انسانی جان کے لیے خطرات موجود ہیں۔ ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ میں ’’ماہی گیر گٹکا‘‘ زیادہ استعمال ہوتا ہے، جس پر ہیروئن کا تڑکا لگتا ہے، وہ خاصا مہنگا ملتا ہے۔ شہر کے گٹکے سے اس کے ریٹ 50 فیصد زیادہ ہوتے تھے۔ اب ساحلی آبادیوں کراچی، ٹھٹھہ، جوہڑ جمالی، گھارو، بدین میں بھی سختی ہو چکی ہے اور جو گٹکا مل رہا ہے خاصا مہنگا ہے۔ اب غریب ماہی گیر نسوار کی پڑیاں شکار پر لے کر جاتے ہیں۔