ٹھیلوں پر کباڑ اکٹھا کرنے والے ہزاروں لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، فائل فوٹو
 ٹھیلوں پر کباڑ اکٹھا کرنے والے ہزاروں لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، فائل فوٹو

کراچی میں کباڑیوں کی شامت آگئی

اقبال اعوان :
کراچی میں کباڑ کا کام کرنے والوں کی شامت آگئی۔ پولیس نے کریک ڈائون شروع کر دیا۔ گٹکا فروشوں کے بعد کباڑیئے مقامی پولیس کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہو رہے ہیں۔ پولیس کی سرپرستی میں مسروقہ گاڑیوں کے پارٹس اور مسروقہ سامان کی خریدوفروخت میں کباڑیوں کا کردار خاصا بڑھ گیا تھا۔

مسروقہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے پارٹس الگ کر کے باآسانی فروخت کیے جا رہے تھے۔ جبکہ زیادہ تر ہیروئنچی، شہر بھر میں لوہے کا سامان اور دیگر اشیا چوری کر کے سستے داموں کباڑیوںکو فروخت کرتے ہیں۔ شہر میں بیشتر کباڑیوں کا ڈیٹا پولیس کے پاس نہیں ہے۔ ماہانہ اور ہفتہ وار بھتے کے علاوہ روزانہ موبائل کے ڈیزل کے پیسے کباڑیوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ اب آپریشن کی آڑ میں پولیس نے بھتہ بڑھا دیا ہے۔

شیرشاہ کباڑی مارکیٹ اور رنچھوڑ لائن کباڑ مارکیٹ کے علاوہ شہر میں ہر علاقے میں اتوار اور جمعہ کو کباڑ بازار لگتا ہے۔ جبکہ مختلف علاقوں میں کباڑی کی دکانیں موجود ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

واضح رہے کہ شہر میں کباڑ کا کاروبار منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ دراصل پہلے کباڑی کا نام، شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کے نام پر یاد کیا جاتا تھا۔ علاقوں میں چند دکانیں ہوتی تھیں۔ جو گتے، شیشہ، ہڈی، لوہا، پیتل، تانبا، پلاسٹک، سلور یا دیگر اشیا خریدتی تھیں۔ کباڑی، مشکوک اشیا جن کے بارے میں شک ہوتا تھا کہ چوری کر کے لایا گیا ہے، ان کو واپس کر دیتے تھے۔ تاہم علاقے کی پولیس نے اس کاروبار کو سرپرستی فراہم کی اور مسروقہ اشیا کے حوالے سے آزادی دے دی۔

ہر تھانے دار کباڑیوں کے حوالے سے آتے ہی آگاہی رکھتا ہے۔ اسپیشل پارٹی یا انٹیلی جنس پارٹی کباڑ کے کاروبار پر نظر رکھنا ضروری سمجھتی ہے کہ سونے کی چڑیا ہے۔ اور بھاری بھتے کے عوض کھلی آزادی دی جاتی ہے۔ اب کباڑی اپنے درجنوں ٹھیلے رکھتے ہیں جو صبح سے شام تک بے روزگار افراد کو دیتے ہیں۔ کباڑیوں کے دو طرح کے ٹھیلے ہوتے ہیں۔ ایک شیشہ، لوہا، پلاسٹک، خواتین کے بال یا دیگر کباڑ جمع کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے، گھریلو استعمال شدہ سامان جمع کراتے ہیں جس میں فرنیچر، بیڈ، پرانا ٹی وی، ایل سی ڈی، کمپیوٹر، بلب، موبائل، پنکھے سمیت دیگر سامان شامل ہوتا ہے۔

کباڑی کی دکان پر مسروقہ کار اور موٹر سائیکل کی بیٹریاں اور پارٹس بھی فروخت ہوتے ہیں۔ جبکہ علاقے کے ہیروئنچی پارکوں، گھر، سرکاری اسکول، پلوں اوورہیڈ برج، سرکاری دفاتر سمیت نجی یا سرکاری جگہوں یا گھروں کے آگے سے لوہے کی گرل اور دیگر دھاتی اشیا نکال کر لے جاکر کباڑی کو فروخت کرتے ہیں۔ کباڑی ہیروئنچی کو قیمت بھی خاصی کم دیتے ہیں اور زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس طرح ریلوے کی مسروقہ بیٹریاں اور اسکرو، نٹ، بولٹ اور دیگر اشیا بھی فروخت ہوتی ہیں۔ علاقے میں مخصوص افراد جمعہ اور اتوار کو کباڑی بازار لگاتے ہیں، جہاں بڑوں بچوں کی سائیکلیں موٹر سائیکل، کاروں کے پارٹس، مسروقہ فینسی پرندے، طوطے، مرغیاں، بکریاں تک فروخت ہوتی ہیں۔ سندھ کی وزارت داخلہ، آئی جی سندھ نے اس بار ان کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایات کی ہیں۔ اب کباڑیوں کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا اور مسروقہ سامان و مسروقہ گاڑیوں کے پارٹس کے حوالے سے چھاپے مارے جائیں گے اور کباڑیوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔

اس حوالے سے نارمل کاروبار کرنے والے کباڑی بھی پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ علاقے کے درجنوں بے روزگار افراد کو ٹھیلہ دے کر کاروبار کراتے ہیں۔ اب کریک ڈائون کا سن کر لوگ کباڑیوں کے ٹھیلے نہیں لے رہے ہیں۔