یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو
یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو

جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ٹھوس ثبوت کا دعویٰ

نواز طاہر:
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف بد دیانتی کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ابتدائی کارروائی شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی تبدیل ہوگئی۔ اس تبدیلی کو فاضل جج کیلیے وکلا تنظیموں میں حاصل سپورٹ کا خاتمہ قرار دیا جارہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ مبینہ طور پر انہیں سپورٹ کرنے والے سابق چیف جسٹس بھی اب’ کارگر‘ نہیں رہے اور یہ کہ ریفرنسز میں جو ثبوت پیش کیے گئے۔ تاحال ان کی تردید میں وہ کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کرسکے۔ البتہ دس نومبر تک وہ تردیدی ثبوت فراہم کرنے کی مہلت رکھتے ہیں۔ جو انہیں ان ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس میں دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل ان ریفرنسز کا ابتدائی جائزہ ان کے دائر کیے جانے کے آٹھ ماہ کے بعد لے چکی ہے اور اس پر انہیں اپنا موقف اور دستاویزی ثبوتوں کی نفی پر مشتمل جواب دینے کیلئے کہا جا چکا ہے۔

فاضل سینئر جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پہلا ریفرنس لاہور کے نوجوان قانون دان میاں دائود علی نے تئیس فروری کو دائر کیا تھا اور بعد میں نون لیگ کے وکلا ونگ کے ساتھ ساتھ پاکستان بار کونسل سندھ اور بلوچستان بار کونسلز سمیت مختلف وکلا تنظیموں نے بھی ریفرنس دائر کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان ریفرنسز پر کارروائی کے بجائے انہیں معرضِ التوا میں رکھا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر کیخلاف ریفرنس میں جہاں ان کی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں سوال اٹھایا گیا۔ وہیں پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کے مقدمات پر عدلیہ سے متعلق ان کی گفتگو کی ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی تھی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے بارے میں بھی سوال اٹھے تھے۔

میاں دائود علی ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت کی تبدیلی کو اپنے ریفرنس پر انصاف کی راہ ہموار ہونے سے تعبیر کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سپریم کورٹ بار کے الیکشن کے بعد قیادت کی تبدیلی سے اب وکلا تنظیموں میں جسٹس مظاہر علی نقوی کی حمایت کی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد تو منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔

پہلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے مذموم مقاصد کے تحت ریفرنس سرد خانے میں ڈالے ہوئے تھے۔ مسٹر جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ قوم کھڑی ہے اور انہیں ایک بااصول، قانون پسند، آئین کے تابع رہنے والا بہادر جج سمجھتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف کوئی شکایت ملتی ہے تو شواہد کی روشنی میں اس کا احتساب کریں گے۔ اسی طرح وکلا تنظیموں کو بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے امید ہے کہ وہ بدیانت اور نااہل سے ججوں سے عدلیہ کا ادارہ پاک اور شفاف بنائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں میاں دائود ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’’میں نے اپنے ریفرنس میں فاضل جج کی پراپرٹی، اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے بارے میں دستاویزی ثبوتوں کے علاوہ آڈیو ریکارڈنگ کی کاپی بھی فراہم کی ہے۔ میرے ریفرنس دائر کرنے کے بعد باقی ریفرنس بھی دائر کیے گئے۔ اب ان ریفرنسز پر ابتدائی کارروائی شروع ہوگئی ہے تو طریقہ کار کے تحت دس روز کے اندر جواب دینے کا وقت دیا گیا ہے۔ اگر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ان الزامات اور ثبوتوں کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو پھر پراسیکیوشن کا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ جس طرح کے ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ وہ سب ناقابلِ تردید ہیں۔ جبکہ اُنہیں کچھ وکلا کی طرف سے حاصل سپورٹ بھی ختم ہوچکی ہے۔ میں اپنے ریفرنس پر فوکس کیے ہوئے ہوں اور بار کونسلز اپنے کیس پر فوکس کریں گی۔ اب انصاف کی راہ میں حائل راوٹیں ختم ہوچکی ہیں‘‘۔

ایک اور سوال پر میاں دائود ایڈڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں متعدد ایسے جج ہیں۔ جو منصب کے مطابق قابلیت نہیں رکھتے اور وکلا برادری ان سے آگاہ اور نالاں ہے۔ تاہم ابھی یہ معلوم نہیں کہ ان میں سے کسی کے خلاف کوئی ریفرنس یا شکایت بھی سامنے لائی جارہی ہے یا نہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ انصاف ملنے کے امکانات روشن ہیں۔