کارروائیوں کے باوجود جعلسازی پر 5 فیصد قابو پایا جا سکا ہے، فائل فوٹو
 کارروائیوں کے باوجود جعلسازی پر 5 فیصد قابو پایا جا سکا ہے، فائل فوٹو

ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر جعلی کریموں اور لوشنز کی بھرمار

عمران خان :
ملک میں موسم سرد ہوتے ہی کراچی سے خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان تک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر جعلی کریموں، لوشن اور دیگر کاسمیٹکس کی بھرمار ہونے لگی۔ اس مذموم دھندے میں اہم تبدیلیاں بھی آگئی ہیں۔

گزشتہ برسوں میں جعلی کریمیں اور لوشن بھرنے کے لئے بوتلیں مقامی سطح پر تیار کی جاتی تھیں۔ تاہم اب ڈالرکی قیمت بڑھنے سے پلاسٹک دانہ اور دیگر خام مال مہنگا ہونے اور ایل سیز نہملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر جعلی کریموں اور لوشنز کی بھرمار کھلنے کے سبب مقامی طور پر اس کی تیاری مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے چین سے بھاری مقدار میں برانڈڈ کمپنیوں کی مصنوعات کی بوتلیں اور اسٹیکر تیار کروا کے افغان ٹرانزٹ اور دیگر قسم کے سامان میں اسمگل کرکے لائی جا رہی ہیں۔ جنہیں مقامی طور پر قائم کارخانوں میں جعلی پیسٹ سے بھر کر سپلائی کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بعض گروپوں میں شامل تاجر بوتلیں بھی دیگر ممالک سے بھرواکر منگوا رہے ہیں۔ جسے الیکٹرانک سامان کی طرح فرسٹ کاپی اورسیکنڈ کاپی کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی جعلی کے زمرے میں آتی ہیں۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق خشک و سرد موسم میں ان کریموں اور لوشن کا استعمال بے تحاشا بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اس دھندے میں ملوث مافیا کے نیٹ ورک اور تاجر اس کو سیزن قرار دیتے ہیں۔ جس کے لئے کئی ہفتے پہلے ہی سامان تیار کرکے شہروں کے گلی محلوں کی دکانوں اور مارکیٹوں تک سپلائی کر دیا گیا ہے۔ جن کمپنیوں کا جعلی کاسمیٹکس زیادہ تعداد میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ان میں یونی لیور، جانسن اینڈ جانسن، گمیئر اور پراکٹر اینڈ گیمبل سمیت دیگر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جعلی مصنوعات شامل ہیں۔

ذرائع کے بقول اس مافیا نے ملک کے تمام ہی شہروں بالخصوص کراچی میں منظم نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شیمپو، لوشنز، ٹیلکم پائوڈرز، بیوٹی اور کولڈ کریموں کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ بھی بڑی مقدار میں جعلی تیار کرکے مقامی مارکیٹوں اور دکانوں پر سپلائی کیے جا رہے ہیں۔ ایک سنگین پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ اس دھندے میں ملوث تاجر شہریوں کی صحت کے ساتھ کھیل کر اربوں روپے کا ناجائز منافع بٹورنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ کمپنیاں اس نیٹ ورک کے حوالے سے شہریوں کو اس لئے باخبر رکھنے سے گریز کر رہی ہیں کہ ان کی اپنی ساکھ متاثر ہونے سے ان کی سیل اور پرافٹ میں کمی نہ آ جائے۔

ذرائع کے بقول ماضی میں اس طرح کی جعلسازیوں کے لئے بولٹن مارکیٹ کی کچھی گلی، بوتل گلی، چھانٹی لین، کاغذی بازار، جوڑیا بازار کے اطراف اور لائٹ ہائوس، پاکستان چوک کے اطراف کی گلیوں میں موجود کارخانوں میں ہی بوتلیں اور پیکنگ میٹریل حاصل کیا جاتا تھا۔ تاجر شہر میں جعلی مصنوعات تیار کرنے والوں سے آرڈر وصول کرنے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں قائم کارخانوں سے خالی بوتلیں تیار کروا کر اپنے گوداموں پر منگوالیا کرتے تھے۔ پیکنگ میٹریل کی پرنٹنگ کے بعد خالی بوتلیں تیار کرکے سپلائی کردیتے تھے۔

تاہم گزشتہ برسوں میں ایک جانب پلاسٹک دانے، پیکنگ مٹیریل، پروڈکشن کاسٹ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وہیں ورکرز کاسٹ یعنی مزدوری کی قیمت بھی بڑھ گئی۔ کارروائی کرنے والے متعلقہ اداروں کی رشوت وصولی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر قسم کے سامان کے ساتھ ہی چین سے سستے داموں بین الاقوامی کمپنیوں کے برانڈز کی خالی بوتلیں منگواکر جعلسازوں کو ’’ڈن‘‘ کی بنیاد پر ان کے کارخانوں تک پہنچانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ اس کام کے لئے اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں نے کلیئرنگ ایجنٹوں کے ساتھ مل کر ایک نیٹ ورک ترتیب دیا ہے۔ جس میں انہیں کسٹم کلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، کسٹم کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور کسٹم کلکٹریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے علاوہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آئی پی آر ای کے بعض کرپٹ افسران کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ ذرائع کے بقول گزشتہ عرصے میں مذموم دھندا عروج پر پہنچ چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سیل میں اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ کیونکہ شہروں کی گلی کوچوں میں قائم چھوٹی دکانوں اور جنرل اسٹورز کے علاوہ اب جعلسازوں کا یہ سامان بڑے اسٹوروں کی زینت بھی بننے لگا ہے۔

اسی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان ٹریڈ مارک کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کی جانے والی نجی کمپنی میسرز برانڈ پاکستان کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ تاکہ انہیں اٹارنی دے کر کسٹم حکام کے ذریعے جعلسازوں کے خلاف خاموشی سے کارروائیاں کرواکر اس نیٹ ورک میں کمی لائی جاسکے۔

’’امت‘‘ کو کسٹمز سے ملنے والی معلومات کے مطابق ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے میسرز برانڈز پاکستان کی نشاندہی پر حالیہ عرصے میں کی جانے والی کارروائیوں میں ایک معروف اور بہت زیادہ فروخت ہونے والے برانڈڈ کولگیٹ پامولیو کمپنی کی خالی ٹیوبز کی پیکنگ کی ایک شپمنٹ جسے دیگر سامان کی آڑ میں کراچی پورٹ سے کلیئر کروایا جا رہا تھا، قبضے میں لے لیا گیا۔

اسی طرح سے ایک اور کارروائی میں عالمی کمپنی M/s Wipro Limited کے مشہور برانڈ Yardley ٹالکم پائوڈر کے ہزاروں ڈبے دیگر سامان کی آڑ میں بیرون ملک سے لا کر کراچی پورٹ سے کلیئر کروائے جا رہے تھے۔ جنہیں بروقت اطلاع پر قبضے میں لے کر قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ یہ ڈبے (میسرز ایفائز میریم انٹرنیشنل) M/s Eifeys Mariyam International نامی کمپنی کی جانب سے درآمد کئے جا رہے تھے۔ اسی طرح ایک اور بڑی کارروائی میں یونی لیور (Unilever)، جانسن اینڈ جانسن (Johnson & Johnson)، پراکٹر اینڈ گیمبل (Proctor & Gamble) اور گارنیئر (Garnier) کمپنیوں کی معروف مصنوعات کی خالی بوتلوں کے 749 کار ٹن سے بھرا کنٹینر روک لیا گیا۔ جسے چین سے منگوا کر کراچی پورٹ پر کسٹم اپریزمنٹ کے افسران سے کلیئر کروایا جا رہا تھا۔ ان کارٹنز میں 12 ہزار 516 درجن خالی بوتلیں، جن کی مجموعی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد بنتی ہے بر آمد ہوئیں۔ جنہیں ضبط کرکے قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ مذکورہ خالی بوتلوں کی کھیپ چین سے درآمد کرنے والی کمپنی میسرزڈبل اے ایم (M/s AAM International) کی جانب سے کلیئرنس کی جا رہی تھی۔

گزشتہ عرصہ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے کیے جانے والے تحفظات پر ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اور وزارت صنعت و تجارت نے ڈائریکٹوریٹ جنرل آئی پی آر ای کو زیادہ سے زیادہ کارروائیاں کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ جس کیلئے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر سائوتھ متحرک ہیں۔ لیکن اس وقت بھی اس جعلسازی پر 5 فیصد قابو پایا جاسکا ہے۔ جبکہ 95 فیصد سامان ملی بھگت سے باآسانی کلیئر کرایا جا رہا ہے۔