بڑے نجومیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ڈھونڈ لیا، فائل فوٹو
 بڑے نجومیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ڈھونڈ لیا، فائل فوٹو

فٹ پاتھی نجومی اپنی قسمت کو رونے لگے

اقبال اعوان :
کراچی میں شہریوں کی قسمت بتانے والے نجومی اپنی قسمت کو رونے لگے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے شہری اب نجومیوں کے چنگل میں نہیں آتے۔ روزگار ٹھنڈا ہونے کے باوجود سڑک، چوراہوں اور مزاروں پر بیٹھنے والے نجومی اپنا روزگار ختم کرنے پر تیار نہیں۔

نجومیوں کا کہنا ہے کہ شہر میں جب تک ایک بھی بیوقوف زندہ ہے ان کا روزگار چلے گا۔ مزاروں، صدر کے چوراہوں، بس اڈوں، تفریحی مقامات، ریلوے اسٹیشن کے باہر اب بھی نجومی نظر آتے ہیں۔ جبکہ طوطا فال والے کم ہو چکے ہیں کہ طوطے سے قسمت کا لفافہ اٹھانے کا حربہ اب نہیں چل سکتا ہے اور تربیت یافتہ طوطے کا خرچہ الگ اٹھانا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ کراچی میں 10/15 سال قبل جس طرح عاملوں اور نقلی حکیموں کی بھرمار تھی۔ اسی طرح ہر جگہ طوطا فال والے اور نجومی نظر آتے تھے۔ کلفٹن کی مین سڑک کے کنارے اور ساحل تک ریت پر اب بھی درجنوں نجومی نظر آتے ہیں۔ تیز رنگوں کے کپڑے پہنے ہاتھوں میں لوہے کے کڑے، گلے میں موتیوں کی مالا پہن کر ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا سارا علم غیب یہ جانتے ہیں۔ اپنے سامنے بڑے بڑے بورڈ لگواتے ہیں کہ فلاں نجومی آپ کو سو فیصد مستقبل کا حال بتائے گا اور ساتھ اپنی فیس کی رقم درج کرتے ہیں۔ کوئی سامنے لفافوں کی قطاریں رکھے بیٹھا ہے کہ ساتھ پنجرے میں طوطا بٹھایا ہوا ہوتا ہے جو لکڑی کے اشارے پر ایک لفافہ اٹھا کر الگ آجاتا ہے جس میں موجود کاغذ پر درج تحریر کو اس شخص کی قسمت کا حال بتایا جاتا ہے۔دیگر تفریح کے ساتھ لوگ ان کو ہاتھ دکھاتے تھے اور وہ ماضی کی باتیں پوچھ کر اپنی مرضی سے آنے والے اچھے حالات کا بتاتا تھا۔

اب نجومی کی فیس 10 روپے سے بڑھ کر 100 روپے ہو گئی ہے۔ طوطا فال والے 300 روپے مانگتے ہیں۔ کلفٹن کے ساحل پر موجود نجومی اختر علی نے بتایا کہ شہر میں ابھی بھی کافی بیوقوف موجود ہیں اور ان کو فاقوں کا ڈر نہیں ہے کہ سارا دن میں دو، چار لوگ بھی آجائیں تو کام چل جاتا ہے۔ تاہم کراچی کے لوگ کم آتے ہیں اور دوسرے شہروں سے آئے لوگ ان کے پاس زیادہ آتے ہیں۔ زیادہ تر غریب اور کم تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں کہ پریشان ہیں کہ کوئی آگے بہتری کی صورت حال نظر نہیں آرہی ہے۔ اب پہلے کی طرح تفریح کی غرض سے آنے والے ہر عمر کے لوگ اور خواتین نہیں آتی ہیں۔

لائٹ ہائوس کے قریب سڑک کنارے موجود نجومی جمیل احمد کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور گزشتہ 40 سال سے ادھر روزگار کررہا ہے۔ پہلے سوشل میڈیا اور پھر مہنگائی نے ان کا روزگار ختم کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خود کو سڑک چھاپ نجومی بولتے ہیں۔ ورنہ بڑے بڑے نجومی سوشل میڈیا پر آن لائن کام کرتے ہیں۔ اب وہ مزدوری کرنے سے رہا، سارا دن بیٹھتا ہے تو عدالتوں میں آنے والے پریشان حال ان پڑھ لوگ آجاتے ہیں کہ ان کے رشتے دار کی ضمانت ہو گی، کب رہا ہو گا؟ کوئی کاروبار کے لیے معلوم کرتا ہے۔ صدر ایمپریس مارکیٹ میں خیبر ہوٹل کے سامنے فٹ پاتھ پر چند سال قبل تک درجن بھر نجومی بیٹھتے تھے اور ان میں طوفا فال والے بھی شامل تھے۔ اب چار پانچ نظر آتے ہیں۔

ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے اکبر نامی نجومی کا کہنا تھا کہ علم نجوم کی دو، چار کتابیں پڑھ کر یہ کام 45 سال قبل شروع کیا تھا۔ اس وقت مہنگائی کم تھی اور سوشل میڈیا نہیں تھا۔ روزگار، امتحان، تعلیم، شادی، قرض سے نجات اور دیگر مسائل کے شکار لوگ آتے تھے۔ ان کی اچھی دیہاڑی بن جاتی تھی۔ اب سارا دن بیٹھتے ہیں اور رات کو بمشکل تین چار سو روپے ملتے ہیں اب اور کیا متبادل روزگار کریں۔ اس کاروبار میں بچے بڑے کر کے کاروبار اور نوکری پر لگائے۔ اب ٹائم پاس کررہے ہیں اور اپنی قسمت کو روتے ہیں۔